سورة طه - آیت 135

قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے نبی ان سے فرما دیں کہ ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے تم بھی منتظر رہو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں اور کون ہدایت پانے والے ہیں۔“ (١٣٥)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

سورت ختم ہوگئی لیکن چند مقامات کی مزید تشریح ضروری ہے : فرعون اور حضرت موسیٰ کا مکالمہ : (الف) آیت (٤٩) میں حضرت موسیٰ اور فرعون کا جو مکالمہ نقل کیا ہے وہ اگرچہ دو تین جملوں سے زیادہ نہیں ہے لیکن حقائق معارف کے دفاتر میں پنہاں ہیں۔ فرعون کا پہلا سوال یہ تھا کہ (من ربکما یا موسی) جس پروردگار کا ذکر کرتے ہو وہ کون ہے؟ اس سوال کی نوعیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معلوم کرلیا جائے مصریوں کے عقائد کیا تھے؟ مصری مختلف دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے جن میں سے بعض تو خاص خاص قبیلوں اور علاقوں کے تھے، جیسے نیفات، فتا، اور مات اور بعض عالمگیر قوتوں کے الگ الگ مظاہر تھے۔ جیسے اوزیرس (عالم آخرت کا خدا) میہاورت (آسمان کا خدا) کنیمو (جسم بنانے والا) ایزیز (روح بخشنے والی دیبی) طوط (عمر کی مقدار مقرر کرنے والا) ہو اس (درد و غم دور کرنے والا) حاثور (گائے) رزق بخشنے والا، اور ان سب سے بلند تر آمن رع تھا۔ یعنی سورج دیوتا۔ نیز مصریوں میں الوہیت آمیز شاہی کا تصور بھی پوری طرح نشوونما پاچکا تھا اور تاجداران مصر نے نیم خدا کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ ان کا لقب فاراع اسی لیے ہوا کہ وہ راع یعنی سورج دیوتا کے اوتار سمجھے جاتے تھے۔ من ربکما یا موسیٰ : پس جب حضرت موسیٰ نے کہا : میں خدا کا فرستادہ ہوں تو فرعون نے متعجب ہو کر پوچھا۔ کس خدا کے؟ آمن رع، جس نے مجھے اپنا مظہر ٹھہرایا ہے؟ ایزیز دیبی کے جو روحپیدا کرنے والی ہے؟ کنیو دیوتا کے، جو جسم و خلقت بنانے والا ہے؟ حضرت موسیٰ نے فرمایاَ: نہیں (الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی) ہمارا پروردگار تو وہ ایک ہی پروردگار ہے جس نے دنیا کی ہر چیز کو اس کا جسم ووجود بھی بخشا، اور پھر ہر طرح کی ضروری قوتیں دے کر اس پر زندگی و عمل کی راہ بھی کھول دی۔ غور کرو۔ فرعون کے استفسار میں اس کے عقائد و تصورات کے بے شمار پہلو پوشیدہ تھے، اور اگر حضرت موسیٰ کا طریقہ جدل و مناظرہ کا ہوتا تو ان میں سے ہر بات الجھا لینے کے لیے کافی تھی لیکن انہوں نے اور کسی بات سے تعرض نہیں کیا، صرف ایک ہی بات کہی، مگر ایسی بات جو اس کے سوال کا براہ راست جواب بھی تھی، اس کے تمام تصورات کا بالواسطہ ابطال بھی تھا اور صرف دعوی ہی نہ تھا، دعوے کے ساتھ اس کی خاموش دلیل بھی موجود تھی۔ اس کے تمام تصورات کا ابطال کیونکر ہوا؟ اس طرح کہ میں تمہارے ان گھڑے ہوئے معبودوں کا قائل نہیں جن میں سے کسی کو تم نے خلقت دینے والا سمجھ رکھا ہے، کسی کو روح بخشنے والا، کسی کو رزق و تندرستی کا سرچشمہ، میں تو صرف اس ایک ہی ہستی کا پرستار ہوں جو جسم بھی دیتی ہے اور وہ سب کچھ بھی دیتی ہے جو جسم کے نشوو نما و قیام کے لیے ضروری ہے۔ خالق بھی وہی ہے راہنمائے زندگی بھی وہی ہے، اس کے سوا کوئی نہیں۔ چنانچہ پھر آگے چل کر انہوں نے اس اعتقاد کی تفصیل بھی کردی ہے۔ پھر اس جملہ کی جامعیت اور مانعیت دیکھو، کائنات ہستی میں جو کچھ بھی ہے وہ اس کے سوا کیا ہے کہ یا تو وجود ہے یا وجود کی وہ معنوی قوتیں ہیں جو اسے قائم و باقی رکھتیں اور قیام و عمل کی راہوں پر لگاتی رہتی ہیں۔ انہی دو حقیقوں کو یہاں خلقت اور ہدایت سے تعبیر کیا ہے اور ان دو لفظوں نے وجود اور حیات کے تمام گوشے شمیٹ لیے ہیں۔ دعوے کے ساتھ دلیل کیونکر ہوئی؟ اس کے لیے تفسیر سورۃ فاتحہ کا مبحث ربوبیت دیکھنا چاہیے۔ فما بال القرون الاولی : اس کے بعد فرعون نے دوسرا سوال کیا اور بطریق جدل کیا : (فما بال القرون الاولی) اچھا اگر حقیقت حال ایسی ہی ہے تو جو لوگ پچھلے عہدوں میں گزر چکے ان کے لیے کیا ہونا ہے؟ وہ راہ صواب پر تھے یا گمراہی پر؟ انہیں تو تمہارے اس نئے اعتقاد کی خبر بھی نہ تھی۔ اب دیکھو یہاں پھر وہی صورت پیدا ہوگئی ہے اگر یہ سوال امام فخر الدین رازی سے کیا جاتا تو اسی بحث میں صبح کردیتے اور سارا معاملہ اسی میں الجھ کر رہ جاتا لیکن حضرت موسیٰ داعی تھے، مجادل اور مناظر نہ تھے، انہوں نے صرف ایک بات کہہ کر ساری بحث ہی ختم کردی۔ (علمھا عند ربی فی کتاب) اس کا علم اللہ کو ہے۔ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اور ہمیں اس کی فکر کیوں ہو؟ ہمارے جاننے کے لیے صرف اتنا کافی ہے (لا یضل ربی ولا ینسی) خدا انسانوں کی طرح نہیں ہے کہ غلطی میں کھویا جائے یا کوئی بات بھول جائے۔ اس کا قانون یہ ہے کہ ہر انسان کا جیسا اعتقاد و عمل ہوگا ٹھیک اسی کے مطابق اسے نتائج بھی ملیں گے۔ پس پچھلوں کا جیسا حال رہا ہوگا ویسا ہی نتیجہ بھی بھگتیں گے۔ ہم کو اپنا حال دیکھنا ہے۔ اور اپنے ہی سامنے کی باتوں کا ہم علم بھی رکھتے ہیں۔ ہم اس کاوش میں کیوں پڑیں کہ پچھلوں کا کیا حال تھا اور وہ بخشے جائی گے یا نہیں۔ غور کرو فرعون کا سوال مجادلانہ تھا اور ایسا تھا کہ بحث و کاوش کی قسم کا کوئی جواب بھی دیا جاتا، مسکت اور مختتم کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ جو بات بھی کہی جاتی بحث طلب ہوتی اور ایک نیا سوال پیدا کردیتی۔ لیکن انبیاء کرام کا طریق دعوت یہ نہیں ہوتا کہ بحث میں الجھیں یا دوسرے کو الجھائیں۔ پس حضرت موسیٰ نے اس کاوش میں پڑنے ہی سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا ہم یہ جناتے ہی نہیں اور ہمیں اس کا خواہشمند بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اسے جانیں۔ اور پھر غور کرو انہوں نے اس جملہ کے اندر جو بات کہہ دی وہ انسان کی فکری گمراہیوں کی کتنی راہیں بند کردیتی ہے۔ بشرطیکہ لوگ اسے سمجھیں؟ مگر مصیبت یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ اسی کاوش کی پیروی کرتے رہے جو فرعون کے سوال سے ٹپک رہی ہے وہ حقیقت نہ پاسکے جو حضرت موسیٰ کے جواب میں مضمر ہے۔ حضرت موسیٰ کے جواب نے ہمیں یہ اصل عظیم بتلا دی ہے کہ جن گوشوں کا ہمیں علم نہیں اور جن کی کاوش ہمارے لیے سود مند بھی نہیں ان کی فکر میں ہمیں نہیں پڑنا چاہیے، اور ان کا حکم اللہ کے حوالہ کردینا چاہیے، اگر لوگ اس اصل عظیم پر عامل ہوجائیں تو مذاہب کے کتنے ہی گمراہ کن جھگڑے ختم ہوجائیں۔ ابھی دور نہ نکلو، اسی گوشہ میں رہو جو فرعون کے اس مجادلانہ سوال کی اصلی جگہ ہے۔ اور غرو کرو مذہب کے نام سے کتنے جھگڑنے بنا لیے گئے ہیں جن میں سے ہر جھگڑا (فما بال القرون الاولی) کی فرعونی صدا کا ٹھیک ٹھیک اعادہ ہے؟ اب سے پہلے فلاں گروہ جو گزرا ہے اہل حق میں تھا یا اہل باطل میں؟ فلاں انسان جو گزر چکا، نیک تھا یا بد؟ فلاں بزرگ کا رتبہ خدا کے نزدیک زیادہ ہے یا فلاں بزرگ کا؟ افضل کون ہے؟ زید یا عمرو؟ ولایت و طریقت میں سب سے بڑا کون رہا؟ فلاں یا فلاں؟ پھر اس میں بحثیں ہیں، تصنیفیں ہیں، لڑائیاں ہیں، فرقہ بندیاں ہیں۔ گویا انسان کی نجات کے لیے صرف یہی فکر کافی نہیں کہ خود اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ اس فیصلہ کے لیے بھی ذمہ دار بنا دیا گیا ہے کہ اب سے پانچ سو برس پہلے کسی نے کیا کیا تھا اور ایک ہزار برس پہلے کون کیسا تھا۔ پھر ان میں سے ہر فریق اس طرح حکم لگانا شروع کردیتا ہے، گویا خدا کے دفتر کا رجسٹر ابھی ابھی پڑھ کر اٹھا ہے اور اسے علم قطعی حاصل ہوگیا ہے کہ فلاں کا نام فلاں درجہ میں لکھا ہوا ہے، فلاں کا فلاں درجہ میں : پچاس برس ہوئے شام میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے دوسرے گروہ کی بستیاں صرف اس لیے جلا دی تھیں کہ ایک کہتا تھا، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سب سے بڑے ولی ہیں، دوسرا کہتا تھا نہیں شیخ احمد عارفی، ہندوستان کا یہ حال ہے کہ آج تک میرے پاس نہایت سنجیدہ عبارت میں لکھے ہوئے استفتا آتے رہتے ہیں، زید کہتا ہے بڑے پیر صاحب سے بڑھ کر کوئی نہیں، عمرو کہتا ہے مجدد الف ثانی سے بڑھ کر کوئی نہیں، نماز کس کے پیچھے جائز ہے؟ ایک مرتبہ میرے جی میں آیا، لکھ دوں، دونوں کے پیچھے نہیں۔ فقہ کے مذاہب اربعہ جب مشخص و مدون ہوگئے اور تقلید شخصی کا التزام قائم ہوگیا تو سوال پید اہوا، ان چاروں اماموں میں فضل کون ہیں؟ حضرت امام ابو حنیفہ یا امام شافعی؟ اب بحث شروع ہوئی اور بحث نے جنگ و قتال کی شکل اختیار کی، چنانچہ ہلاکو خان کو اسلامی ممالک پر حملہ کی سب سے پہلی ترغیب خراسانیوں کے اسی جھگڑے سے ملی تھی۔ حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آکر بلاوا بھیجا اور شہر کے پھاٹک کھول دیے، پھر جب تاتاریوں کی تلوار چل گئی تو اس نے نہ شافعی کو چھوڑا نہ حنفی کو (فجاسوا خلال الدیار، وکان وعدا مفعولا) شیعہ سنی اختلاف نے مسلمانوں کو دو مختلف امتوں میں متفرق کردیا، لیکن اس تمام اختلاف کا ماحصل بھی کیا ہے ؟ یہی کہ (فما بال القرون الاولی) اور تیرہ سو برس گزر گئے مگر اتنی بات کسی کے سمجھ میں نہیں آتی کہ (علمھا عند ربی فی کتاب، لا یضل ربی ولا ینسی) بہرحال یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کی تمام کاوشوں کے اندر وہی فرعون والی مجادلانہ روح کام کیا کرتی ہے اور طریق موسوی یہ ہے کہ (علمھا عند ربی فی کتاب) کہہ کر سارے جھگڑے ختم کر ڈالنا اور سرے سے ان کاوشوں میں پڑنا ہی نہیں۔ قرآن اور صاحب وحی نے ہمیں جن امور کی خبر دے دی ہے ان کا علم ہمیں حاصل ہوگیا ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ان باتوں کو اسی طرح یقین کریں جس طرح بتلا دی گئی ہیں۔ لیکن ان سے زیادہ جو سوال بھی دینی عقائد کی بنا پر اٹھایا جائے گا، ہمارا جواب یہی ہوگا۔ (علمھا عند ربی فی کتاب، لا یضل ربی ولا ینسی) خدا نے اپنے دفتر کی مثلیں ہمارے پاس نہیں بھیج دی ہیں اور نہ ہمیں لوگوں کی سعادت و شقاوت اور مدارج و فضائل کے فیصلہ کی ٹھیکیداری عنایت فرمائی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں، حقیقت حال کیا ہے۔ البتہ خوش قسمتی سے معاملہ ایسے محاسب کے ہاتھ ہے جو نہ تو غلطی کرسکتا ہے نہ بھول چوک میں پڑ سکتا ہے۔ پس دوسروں کی فکر میں تمہیں گھلنے کی ضرورت نہیں، اپنی خبر لو اور ان کا معاملہ ان کے خدا پر چھوڑ دو۔ سامری اور گو سالہ پرستی کا معاملہ : آیت (٨٧) میں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور یہ مقام بھی من جملہ ان مقامات کے ہے جن میں قرآن کی تصریحات تورات کے موجودہ نسخہ سے مختلف واقع ہوئی ہیں اور اس کی صریح تحریفات نمایاں کرتی ہیں۔ خروج (١: ٣٢) میں ہے کہ سنہرا بچھڑا خود حضرت ہارون نے بنایا تھا۔ لیکن قرآن نے یہاں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ حضرت ہارون کا دامن اس شرک سے پاک تھا یہ دراصل سامری کی کارستانی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سامری کون تھا؟ یہ اس کا نام تھا یا قومیت کا لقب؟ قیاس کہتا ہے کہ یہاں سامری سے مقصود سمیری قوم کا فرد ہے کیونکہ جس قوم کو ہم نے سمیری کے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے عربی میں اس کا نام قدیم سے سامری آرہا ہے اور اب بھی عراق میں ان کا بقایا اسی نام سے پکارا جاتا ہے یہاں قرآن کا السامری کہہ کے اسے پکارنا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہیں ہے، اس کی قومیت کی طرف اشارہ ہے، یعنی وہ شخص اسرائیلی نہ تھا، سامری تھا۔ سمیری تمدن : حضرت مسیح سے تقریبا ساڑھے تین ہزار برس پہلے دجلہ و فرات کے دو آبہ میں دو مختلف قومیں آباد ہورہی تھیں اور ایک عظیم الشان تمدن کی بنیادیں اٹھا رہی تھیں، ان میں سے ایک قوم جو جنوب سے آئی تھی عرب تھی، دوسری جس کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ شمال سے تری سمیری تھی، اسی قوم کے نام سے تاریخ قدیم کا شہر سامر اور اور آباد ہوا تھا جس کا محل اب تل العبید میں دریافت ہوا ہے اور وہاں سے پانچ ہزار برس پیشتر کے بنے ہوئے زیور اور سنہری ظروف برآمد ہورہے ہیں۔ سمیری قوم کی اصل : سمیری قوم کی اصل کیا تھی؟ اس بارے میں اس وقت تک کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکے، لیکن نینوا میں آشور بنی پال (متوفی ٦٢٦ قبل مسیح) کا جو کتب خانہ نکلا ہے اس میں تختیوں کا ایک مجوعہ سے کوئی بعیدی تعلق رکھتے ہوں جن کے لیے ہم نے تورات کی اصطلاح سامی اختیار کرلی ہے۔ نسل انسانی کے دو قبائل سرچشمے : اصل یہ ہے کہ جس طرح عہد قدیم میں منگولیا کا علاقہ صحرا نور و قبائل کا ابتدائی سرچشمہ رہا ہے اور یہاں سے انسانی گروہوں کے قافلے نکل کر وسط ایشیا، ہندوستان، ایران، اناتولیا، اور پھر تمام یورپ میں پھیل گئے، ٹھیک اسی طرح نسل انسانی کے اقدام و انشعاب کا ایک مرکزی سرچشمہ جزیرہ نمائے عرب بھی رہ چکا ہے۔ یہاں کے صحراؤں میں یکے بعد دیگرے نسل انسانی کا مواد بنتا ہے رہا اور پھر ابل ابل کر دور دور تک پھیلتا گیا۔ فلسطین، شام، مصر، عراق، آرمینیا، اور خلیج فارس کی ساحلی آبادیاں، سب اسی مرکزی نسل کا انشعاب تھیں اور سب کا تمدن اسی عربی نسل کا تمدن تھا، قوم عیلام جس کا ذکر کتاب پیدائش میں آیا ہے اور جو جنوبی ایرانی میں آباد تھی، عجب نہیں دراصل اسی نسل کی ایک شاخ ہو (اس مقام کی مزید تفصیل سورۃ نوح کی تشریحات میں ملے گی) بہرحال سمیری قبائل کا اصلی وطن عراق تھا، مگر یہ دور دور تک پھیل گئے تھے۔ مصر سے ان کے تعلقات کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح تک روشنی میں آچکا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے اسی قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ کا بھی معتقد ہوگیا، اور جب بنی اسرائیل نکلے، تو یہ بھی ان کے ساتھ نکل آیا، اسی کو قرآن نے السامری کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ سامری کا ایمان اور پھر ارتدا : گائے، بیل، اور بچھڑے کی تقدیس کا خیال سمیریوں میں بھی تھا اور مصریوں میں بھی۔ مصری اپنے دیوتا حورس کا چہرہ گائے کی شکل کا بناتے تھے اور خیال کرتے تھے، کرہ زمین میں ایک گائے کی پشت پر قائم ہے، جب سامری نے دیکھا، بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی عدم موجودگی سے مضطرب ہورہے ہیں تو اس نے کہا مجھے سونے کے زیور لادو، پھر انہیں گلا کر بچھڑے کی ایک مورتی بنا دی، مصری مندروں کی مخفی کاریگریاں اسے معلوم تھیں، اس نے مورتی کے اندر ہوا کے نفوذ و خروج کی ایسی کل بٹھا دی کہ اس سے ایک طرح کی آواز نکلنے لگی۔ سامری حضرت موسیٰ کا معتقد ہوگیا تھا لیکن اسرائیلی توحید پر اس کا دل جما نہیں تھا۔ چند دنوں اسی طریقہ پر کار بند رہا۔ پھر منحرف ہوگیا۔ اسی لیے جب حضرت موسیٰ نے پوچھا، یہ تو نے کیا کیا؟ تو اس نے کہا (بصرت بما لم یبصروا بہ) مجھے ایسی بات سجھائی دی جو دوسروں کو نہیں سوجھی، یعنی بچھڑا بنانا۔ (فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتھا) میں نے رسول کی پیروی میں تھوڑا بہت حصہ لے لیا تھا مگر پھر چھوڑ دیا۔ یعنی گو میں نے آپ کی پیروی میں چند قدم اٹھا دیے تھے مگر میرا دل اس پر جما نہیں تھا۔ (وکذلک سولت لی نفسی) کیا کروں، میری طبیعت کا ایسا ہی تقاضا ہوا۔ میں آپ کے پیچھے چل نہ سکا۔ عربی میں جب کہیں گے قبضت قبضۃ میں نے صرف ایک مٹھی اٹھائی، تو اس کے معنی تقلیل کے ہوں گے، قبضت قبضۃ ای شیء قلیل، والقبضۃ القدر المقبوض (ابن سیدہ) اردو کا بھی محاورہ ہے میں نے تو صرف ایک ہی مٹھی اٹھائی ہے، یعنی بہت تھوڑار حصہ لیا ہے۔ گوسالہ کی نسبت یہودی خرافہ : یہودیوں نے اپنی قومی بریت کے لیے یہ کہانی گھڑ لی تھی کہ گو سالہ پرستی کے معاملہ میں ایک روحانی طاقت کا ہاتھ کام کر رہا تھا۔ ورنہ ہمارے اسلاف کیوں ایسی گمراہی میں پڑتے؟ وہ کہتے تھے، بچھڑے کی گویائی اس مٹی کا معجزہ تھا جو حضرت جبریل کے گھوڑے کے سموں سے پامال ہوئی تھی۔ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو ان کے آگے آگے جبریل جارہے تھے اور زندگی کے فرشتہ پر سوار تھے جس نے گھوڑے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس گھوڑے کے سم جس مٹی پر پڑتے تھے اس میں زندہ کردینے کی خاصیت پیدا ہوجاتی تھی۔ یہ بات کسی نے نہیں دیکھی لیکن سامری نے دیکھ لی۔ پس اس نے بچھڑا بنا کر اس میں (آب حیات کی جگہ) اس خاک حیات کی ایک مٹھی ڈال دی۔ بس پھر کیا تھا وہ زندہ ہو کر بولنے لگا۔ مفسرین کا تسامح : افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ کہانی تفسیر کی روایتوں میں بھی داخل ہوگئی اور اثر الرسول کا مطلب یہ بنا لیا کہ جبریل کے نقش قدم کی ایک مشت خاک سامری نے اٹھا لی تھی۔ لیکن یاد رہے کہ یہ تفسیر کسی طرح بھی صحیح نہیں ہوسکتی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایسی تفسیر کرنا قرآن کے اس مقام کو تمسخر انگیز حد تک بے معنی بنا دینا ہے۔ اولا : قرآن نے اس معاملہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے اور یہ بات بلاغت قرآنی کے صریح خلاف ہے کہ ایک ایسا واقعہ جو قیاس اور قرینہ سے معلوم نہیں کیا جاسکتا بیان نہ کرے اور پھر اچانک صرف اثر الرسول کہہ کر اس کی طرف اشارہ کردے۔ ثانیا : قرآن میں جہاں کہیں بھی بغیر اضافت و اسناد کے الرسول کہا گیا ہے، اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے یعنی پیغمبر، پس یہاں الرسول سے فرشتہ سمجھنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ ثالثا : ایسا سمجھنا صریح قرآن کو جھٹلانا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کہیں یہ نہیں کہتا کہ بچھڑے کی مورتی میں زندگی پیدا ہوگئی تھی بلکہ صاف صاف کہتا ہے کہ (جسدا لہ خوار) ایک بے جان دھڑ تھا جس سے آواز نکلتی تھی، اگر ایک ملکوتی کرشمہ نے اسے زندہ کردیا ہوتا تو قرآن اسے (عجلا جسدا) کیوں کہتا؟ رابعا : قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ اس مورتی میں کوئی بات نہ تھی۔ محض ایک شعبدہ تھا، کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے استعجاب و تاثر کو ان کی حد درجہ بے وقوفی قرار دیتا ہے اور کہتا ہے (افلا یرون الا یرجع الیھم قولا) یعنی ان عقل کے اندھوں نے اتنی بات بھی نہ دیکھی کہ اگر یہ کوئی زندہ وجود ہے تو ان کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتا؟ خالی بھاں بھاں کیوں کرتا رہتا ہے ؟ پھر اگر مفسروں کی یہ کہانی مانلی جائے تو سلیم کرلینا پڑے گا کہ قرآن کا یہ بیان یک قلم غلط ہے۔ کیونہ اس میں تو ایک ملکوتی معجزہ تھا، اس کے اندر تو جبریلی زندگی کی ایک روح دوڑ رہی تھی۔ خامسا : یہ کہانی خود اپنی بناوٹ ہی میں ناقابل تسلیم ہے، اگر فی الحقیقت کوئی ایسا ملکوتی مظاہرہ ہوا تھا اور (بصرت بما لم یبصروا بہ) کے یہی معنی ہیں تو مان لینا پڑے گا کہ سامری کی روحانی بصیرت تمام بنی اسرائیل سے حتی کہ حضرت ہارون سے بھی کہ پیغمبر تھے بڑھی ہوئی تھی، کیونکہ یہ کرشمہ الہی کوئی نہد یکھ سکا۔ صرف اس کی نگاہ حقیقت شناس کام کرگئی۔ بلکہ کہنا پڑے گا، خود حضرت موسیٰ سے بھی بڑھی ہوئی تھی، کیونکہ وہ بھی یہ بات نہ پاسکے، لیکن کیا ایسا مانا جاسکتا ہے؟ حمزہ، کسائی اور اعمش کی قرات میں (بما لم یبصروا بہ) کی جگہ (بما لم تبصروا بہ) (المثناۃ) ہے۔ اگر یہ قرات اختیار کلی جائے تو صریح مطلب یہ ہوگا کہ میں نے وہ بات دیکھ لی جو تم نہ دیکھ سکے۔ یعنی حضرت موسیٰ بھی نہ دیکھ سکے، پھر کیا بصرت کو اس کہانی پر لے جانا صحیح ہوسکتا ہے ؟ سادسا : خود یہی مفسر (عجلا جسدا لہ خوار) کی تفسیر میں یہ قول بھی کرتے ہیں کہ خوارہ کان بالریح، لانہ کان عمل فیہ خر وقافا ذا دخلت الریح جوفہ خار ولم یکن فیہ حیاۃ۔ یعنی اس میں زندگی نہ تھی، محض ہوا کے نفوذ سے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی تھی۔ پھر جب یہ تفسیر بھی موجود ہے تو کون سی وجہ ہے خواہ مخواہ حضرت جبریل کو گھسیٹا جائے اور فرشتوں کو گھوڑا بننے کی زحمت دی جائے۔ سابعا : جن رایتوں کی بنا پر یہ کہانی چلی ہے، اگر ان کے متن سے قطع نظر کرلی جائے تو باعتبار اسناد کے بھی لائق اعتنا نہیں۔ بس سے زیادہ زور ابن منذر، ابن ابی حاتم اور حاکم کی روایت پر دیا جاتا ہے جس میں حضرت علی کا قول نقل کیا گیا ہے لیکن وہ بھی مجروح ہے اور حاکم کی تصحیح کی جو قدر و قیمت ہے وہ ہم امام ذہبی کی زبانی سن چکے ہیں۔