يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا
” وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمان کے حضور (یعنی اپنے حضور) پیش کریں گے۔“ (٨٥)
اب کہ سورت ختم ہورہی ہے سلسلہ بیان پھر اسی مطلب کی طرف رجوع ہوگیا ہے جو اوائل سورت میں چھڑ گیا تھا، یعنی حضرت مسیح کی شخصیت کے بارے میں عیسائیوں کی گمراہی۔ چنانچہ آیت (٨٥) میں فرمایا قیامت کے دن تمام انسان دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک متقیوں کا ہوگا، دوسرا مجرموں کا، متقی اپنے ایمان و عمل کی جزا میں نجات پائیں گے، مجرم اپنے انکار و بدعملی کی پاداش میں عذاب۔ یہ بات کسی کے اختیار میں نہ ہوگی کہ دنیا کے درباروں کی طرح جسے چاہے اپنی سفارش سے چھڑا لے، پس عیسائیوں نے جو حضرت مسیح کو نوع انسانی کے گناہوں کا کفارہ دینے والا اور اس کا شفیع و منجی تصور کرلیا ہے وہ صریح گمراہی نہیں ہے تو کیا ہے۔