فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ
” پھرکچھ گروہ آپس میں اختلاف کرنے لگے پس جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے بربادی ہوگی۔ وہ بڑے دن کا سامنا کریں گے۔ (٣٧)
آیت (٣٧) اور (٣٨) میں قیامت کے دن کا ذکر ہوچکا ہے کہ (من مشھد یوم عظیم) اور (یوم یاتوننا) اس کے بعد (٣٩) میں فرمایا : وانذرھم یوم الحسرۃ اور انہیں یوم الحسرت دن سے بھی خبردار کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس یوم الحسرت سے مقصود قیامت کا دن نہیں ہے، یہ کوئی دوسرا آنے والا دن ہے۔ چنانچہ بعد کی آیت نے اس دن کی نوعیت ظاہر کردی ہے۔ یہ کونسا دن تھا؟ یقینا کوئی ایسا دن جو عیسائیوں کو عنقریب پیش آنے وال تھا، اور جس میں ان کے لیے بڑی ہی حسرت و مایوسی تھی۔ چنانچہ سورۃ مریم کے نزول پر ابھی پچیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ یہ دن نمودار ہوگیا، اور تمام عیسائی دنیا یہ سن کر ششدر رہ گئی کہ مسیحیت کا صدر مقام اور قبلہ و مرکز طاری ہوگئی۔ کیونکہ مسیحیت کی اس سب سے بڑی توہین کو نہ تو مذہب کا کوئی متوقع معجزہ روک سکا، نہ باز نطینی شہنشاہی کا لشکر جرار۔ پھر یہ صرف بیت المقدس ہی کی فتح نہ تھی، تمام ایشیا اور افریقہ میں مسیحی فرمانروائی کا خاتمہ تھا۔ ہر قل (ہرکولس) کے یہ الفاظ جو اس نے تختہ جہاز پر لبنان کی چوٹیوں کو مخاطب کر کے کہے تھے، آج تک مورخوں کی زبانوں پر ہیں، الوداع سرزمین شام، ہمیشہ کے لیے الوداع، غور کرو، کیا یہ دن اپنے کامل معنوں میں مسیحیت کے لیے یوم الحسرۃ نہ تھا؟