وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا
سلام ہے مجھ پر جب کہ میں پیدا ہوا اور جب میں مروں گا اور جب زندہ کرکے اٹھا یا جاؤں گا۔“ (٣٣)
آیت (٣٣) تک حضرت مسیح کے ظہور اور دعوت کا بیان تھا۔ اب فرمایا اس بارے میں قول حق صرف یہ ہے، اس سے زیادہ عیسائیوں نے جو کچھ بنا لیا ہے وہ جہل و گمراہی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد عیسائیوں کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بنا لیا۔ سینٹ پال کی طرف اہنیت کی جو تعلیم منسوب ہے اس کی تمام تر بنیاد اس خیال پر رکھی گئی ہے کہ نوع انسانی کی سرشت میں گناہ ہے، پس اس کی نجات کے لیے ضروری تھا کہ کفارہ ہو۔ کفارہ کی یہی صورت ہوسکتی تھی کہ خدا کی صفت رحمت ابن اللہ کی شکل میں اترے، اور اپنی قربانی کے خون سے اولاد آدم کا گناہ دھو ڈالے۔ قرآن اس اصنامی تخیل کا رد کرتے ہوئے خدا کی بے نیازی اور قدرت کا اثبات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم نے خدا کو اتنا بے بس اور محتاج کیوں سمجھ لیا کہ جب تک ایک انسان کو اپنا بیٹا بنا کر سولی پر نہ چڑھا دے وہ اپنے بندوں کو نجات دینے کی راہ نہیں پاسکتا، یہ تو وہ کرے جو اپنے کاموں کی انجام دہی میں دوسروں کا محتاج ہو۔ لیکن تم خود مانتے ہو کہ خدا محتاج نہیں ہوسکتا۔ صرف اس کا چاہتا ہی کاموں کا انجام پاجانا ہے۔