خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا
جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اس سے نکلنے کی کبھی خواہش نہیں کریں گے۔“ (١٠٨)
سائرس کے احکام و قوانین : قرآن نے ذوالقرنین کا یہ اعلان نقل کیا ہے کہ آئندہ جو ظلم کرے گا، سزا پائے گا، جو حکم مانے کا اور نیک عمل ہوگا اسے انعام ملے گا۔ بعینہ زینوفن کی بھی ایسی ہی روایت ہے۔ قرآن میں ہے کہ (وسنقول لہ من امرنا یسرا) اگر لوگوں نے نیک عملی اختیار کی، تو دیکھ لیں گے میرے احکام و قوانین میں ان کے لیے سختی نہ ہوگی۔ تمام مورخ بالاتفاق شہادت دیتے ہیں کہ اس کے احکام و قوانین ایسے ہی تھے۔ وہ مفتوحہ ممالک کے باشندوں کے لیے سرتاسر شفقت و رحمت تھا۔ اس نے ان تمام بوجھل ٹیکسوں اور خراجوں سے رعایا کو نجات دے دی جو اس عہد کے تمام حکمراں وصول کیا کرتے تھے اس نے جس قدر احکام و فرامین نافذ کیے وہ زیادہ سے زیادہ نرم زیادہ سے زیادہ ہلکے تھے۔ یہ تو اس کی مغربی فتح مندی کی سرگزشت تھی۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس کے اعمال کی عام رفتار کیسی رہی؟ اور قرآن کا بیان کردہ وصف کہاں تک اس پر راست آتا ہے؟ مورخین کی عام شہادت : لیکن قبل اس کے کہ ہم یونانی مورخوں کی شہادتوں پر متوجہ ہوں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یونانی مورخ سائرس کے ہم قوم نہیں تھے۔ ہم وطن نہیں تھے، ہم مذہب نہیں تھے اتنا ہی نہیں بلکہ دوست بھی نہیں تھے، سائرس نے لیڈیا کو شکست دی تھی اور لیڈیا کی شکست یونانی قومیت، یونانی تہذیب اور سب سے زیادہ یہ کہ یونانی مذہب کی شکست تھی۔ پھر سائرس کے جانشینوں نے براہ راست یونانیوں کو زیر کیا تھا اور ہمیشہ کے لیے دونوں قومیں ایک دوسرے کی حریف ہوگئی تھی۔ ایسی حالت میں قدرت طور پر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ یونانی دماغ اپنے حریف کی مدحت سرائی کا شائق ہوگا۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر مورخ اس کی غیر معمولی عظمتوں اور ملکوتی صفتوں کی مدحت سرائی میں رطب اللسان ہے اور اس لیے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے محاسن نے ایک ایسے عالمگیر اعتراف و تاثر کی نوعیت اختیار کرلی تھی کہ دوست و دشمن کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہا تھا۔ سب کے دلوں میں ان کا اعتقاد پیدا ہوگیا تھا، سب کی زبانوں پر ان کی مدحت سرائی تھی اور محاسن وہی ہیں جن کی حریفوں کو بھی شہادت دینی پڑے : وملیحۃ، شھدت بھا ضراتھا۔۔۔۔ والفضل ما شھدت بہ الاعدا ! زینوفن لکھتا ہے، سائرس ایک نہایت دانشمند، سنجیدہ اور ساتھ ہی رحم دل فرمانروا تھا، اس کی شخصیت ہر طرح کے شاہی اوصاف اور حکیمانہ فضائل کا ایک اعلی ترین نمونہ تھی۔ یہ بات عام طور پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ اس کی شوکت و حشمت سے کہیں زیادہ اس کی عالی حوصلگی اور سیر چشمی تھی اور اس کی فیاضی اور رحم دلی اپنی کوئی دوسری مثال نہیں رکھتی۔ انسان کی خدمت اور ہمدردی اس کی شاہانہ طبیعت کا سب سے بڑا جوہر تھا۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ مصیبت زندہ انسانوں کی خبر گیری کرے، مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائے، درماندہ انسانوں کا ہاتھ پکڑے، غم زدوں کے دکھ درد میں شریک ہو، پھر ان تمام عالی صفتوں کے ساتھ عاجزی و خاکساری اس کے حسن و جمال کا سب سے بڑا زیور تھی۔ اس نے ایک ایسے تخت پر بیٹھھ کر جس کے آگے تمام قوموں کے سر جھک گئے تھے اور ایک ایسے خزانہ کا مالک ہو کر جس میں تمام دنیا کی دولت سمٹ آئی تھی کبھی گوارا نہیں کیا کہ فخر و غرور کو اپنے دماغ میں جگہ دے۔ ہیروڈوٹس لکھتا ہے وہ ایک نہایت ہی مخیر بادشاہ تھا۔ اسے دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح دولت جمع کرنے کی حرص نہیں تھی بلکہ جود و سخاوت کا جوش تھا۔ وہ کہتا تھا سب سے بڑی دولت یہ ہے کہ نوع انسانی کی بھلائی کا موقع ملے اور مظلوموں کی داد رسی ہو۔ ٹی سیاز لکھتا ہے اس کا عقیدہ یہ تھا کہ دولت بادشاہوں کے ذاتی عیش و آرام کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ رفاہ عام کے کاموں میں خرچ کی جائے اور ماتحتوں کو اس سے فیض پہنچے۔ چنانچہ اس کی اسی فیض رسانی نے اس کی تمام رعایا کے دل اس کے ہاتھوں میں دے دیے تھے، وہ اس کے لیے خوشی خوشی اپنی گردنیں کٹوا دیتے۔ سائرس کی شخصیت کی غیر معمولی نمود : سب سے زیادہ نمایاں بات جو ان تمام مورخوں کے صفحات پر ملتی ہے وہ سائرس کی شخصیت کی غیر معمولی نمود ہے۔ سب کہتے ہیں کہ وہ جس عہد میں پیدا ہوا اس کی مخلوق نہیں تھا۔ ایک بالا تر شخصیت تھی جسے قدرت نے اپنا کرشمہ دکھانے کے لیے نمودار کردیا تھا۔ دنیا کے کسی حکیم نے اس کی تربیت نہیں کی، وقت کے متمدن ملکوں میں سے کسی ملک میں اس کی پرورش نہیں ہوئی۔ وہ محض قدرت کا پروردہ تھا اور قدرت ہی کے ہاتھوں نے اسے اٹھایا تھا۔ اس کی تمام ابتدائی زندگی صحراؤں کی گود اور پہاڑوں کی آغوش میں بسر ہوئی، وہ فارس کے مشرقی پہاڑوں کا چرواہا تھا۔ تاہم یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہی چرواہا جب دنیا کے سامنے آیا تو حکمرانی کا سب سے بڑا جلوہ، دانش کا سب سے بڑا پیکر، فضیلت کا سب سے بڑا نمونہ ان کے سامنے تھا۔ سائرس اور سکندر : سکندر اعظم کو ارسطو کی تعلیم و تربیت نے تیار کیا تھا اور بلاشبہ وہ بہت بڑا فاتح نکلا لیکن کیا انسانیت و اخلاق کا بھی کوئی گوشہ فتح کرسکا؟ سائرس کے لیے ہمیں کوئی ارسطو نہیں ملتا۔ اس نے انسانی حکمت کی درستاہ کی جگہ قدرت کی درسگاہ میں پرورش پائی تھی تاہم اس نے سکندر کی طرح صرف ملکوں ہی کو نہیں بلکہ انسانیت و فضائل کی مملکتوں کو بھی مسخر کرلیا تھا۔ سکندر کی تمام فتوحات کی عمر اس سے زیادہ نہ تھی جتنی خود اس کی عمر تھی لیکن سائرس کی فتوحات نے جو اینٹیں چن دی تھیں وہ دو سو برس تک نہ ہل سکیں۔ سکندر کے دم توڑتے ہی اس کی مملکت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے لیکن سائرس نے جب دنیا چھوڑی تو اس کی مملکت روز بروز وسیع و مستحکم ہونے والی تھی۔ اس کی فتوحات میں صرف مصر کا خانہ خالی رہ گیا تھا۔ اس کے فرزند کیقباد نے اسے بھی بھر دیا اور پھر چند برسوں کے بعد دنیا کی وہ عالمگیر سلطنت ظہور میں آگئی جو ایشیا، افریقہ اور یورپ کے اٹھائیس ملکوں میں پھیلی تھی اور اس پر سائرس کا جانشین دارایوش تن تنہا حکمراں تھا۔ سکندر کی فتوحات صرف جسم کی فتوحات تھیں جنہیں قہر و طاقت نے سر کیا تھا لیکن سائرس کی فتوحات روح و دل کی فتوحات تھیں جنہیں انسانیت و فضیلت نے سر کیا تھا، پہلی سر اٹھاتی ہے لیکن ٹک نہیں سکتی، دوسری ٹک جاتی ہے اور پھر ٹلتی نہیں۔ سائرس فتح بابل کے بعد دس برس تک زندہ رہا۔ اب اس کی حکومت عرب سے لے کر بحر اسود تک اور ایشیائے کو چک سے بلخ تک پھیلی ہوئی تھی، اور ایشیا کی تمام قومیں اس کے ماتحت آچکی تھیں۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس تمام عرصہ میں بغاوت اور سرکشی کا ایک حادثہ بھی نہیں ہوا کیونکہ زینوفن کے لفظوں میں وہ صرف بادشاہ ہی نہ تھا بلکہ انسانوں کا شفیق مربی اور قوموں کا رحیم باپ تھا، اور رعایا سخت گیر حکمرانوں سے بغاوت کرسکتی ہے لیکن اولاد اپنے شفیق باپ سے باغی نہیں ہوسکتی۔ موجودہ زمانے کے تمام مورخین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز خصوصیت تھی، یہ ایسی خصوصیت تھی جو آگے چل کر رومن امپائر کو بھی نصیبت نہ ہوئی۔ سب مفقہ شہادت دیتے ہیں کہ اس عہد کے بادشاہوں کی سخت گیری، قساوت قلبی اور ہیبت انگیز طریق تعذیب کی چھوٹی سے چھوٹی مثال بھی سائرس کے عہد میں نہیں ملتی۔ زمانہ حال کے محققین کی شہادت : یاد رہے کہ یہ محض قدیم یونانی مورخوں کی روایات ہی نہیں ہیں بلکہ موجودہ زمانے کے تمام محققین تاریخ کی تاریخی مسلمات ہیں۔ بالاتفاق یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ سائرس تاریخ قدیم کی سب سے بڑی شخصیت ہے جس میں بیک وقت فتوحات کی وسعت، فرمانروائی کی عظمت، اور اخلاق و انسانیت کی فضیلت جمع ہوگئی تھی اور وہ جس عہد میں ظاہر ہوا اس عہد میں اس کی شخصیت ہر اعتبار سے انسانیت کا ایک پیام اور قوموں کی نجات تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جی۔ بی گرنڈی (G.B Grundy) جو موجودہ زمانہ میں تاریخ قدیم کے ایک مستند ماہر ہیں اور جن کی کتاب گریٹ پرشین وار نہایت مقبول ہوچکی ہے لکھتے ہیں : یہ حقیقت بالکل آشکارا ہے کہ سائرس کی شخصیت اپنے عہد کی ایک غیر معمولی شخصیت تھی اس نے اپنی تمام معاصر قوموں کے دلوں پر اپنا حیرت انگیز تاثر نقش کردیا۔ اس کی ابتدائی نشوو نما بالائی فارس کے غیر آباد اور دور دراز گوشوں میں ہوئی جس کی سرگزشت نے ایک افسانہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اس کی ابتدائی تربیت کی روایتیں اس سے ڈیڑھ سو برس بعد زینوفن نے مدون کیں جو سقراط کا شاگرد تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام روایتوں میں اس کے فضائل انسانیت کا جو ہر ععام طور پر نمایاں ہے۔ خواوہ ہم ان روایتوں کو اہمیت دیں یا نہ دیں تاہم یہ حقیقت ہر حال میں غیر متزلزل رہتی ہے کہ اس کی تدبیر و سیاست کا دامن اس کی انسانیت و فضیلت کے جوہر سے بندھا ہوا تھا اور جب یہ خصوصیت آشوری اور بابلی شہنشاہوں کی بدعملیوں کے مقابلہ میں لائی جاتی ہے تو اس کی شریفانہ نمود اور زیادہ درخشندہ ہوجاتی ہے۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں : یہ فی الحقیقت ایک حیرت انگیز کامیابی تھی، بارہ برس پہلے وہ ایک چھوٹی سی ریاست انشان کا ایک گمنام رئیس تھا اور اب ایشیا کی وہ تمام ملکتیں اس کے زیر فرمان تھیں جہاں پھچلی قوموں کی بڑی بڑی عظمتیں ظہور میں آچکی تھیں۔ ان تمام بادشاہتوں میں جنہوں نے زمین کے مالک ہونے کے دعوے کیے ایک بادشاہت بھی ایسی نہ تھی جو اب اپنی ہستی کا کوئی موثر ظہور رکھتی ہو آکادمی مملکت کے نیم اصنامی سارگون سے لے کر نبوکدر زار (بخت نصر) تک سب کی مملکتیں اس کے آگے سربسجود ہوگئی تھیں۔ وہ صرف ایک بڑا فاتح ہی نہیں تھا۔ وہ ایک بڑا حکمراں تھا، قوموں نے یہ نیا دور صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کا استقبال کیا، ان دس برسوں میں جو فتح بابل کے بعد گزرے اس کی تمام وسعی مملکت میں ایک بغاوت کا واقعہ بھی نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ اس کی رعایا پر اس کی طاقت کا رعب چھایا ہوا تھا لیکن وہ کوئی وجہ نہیں رکھتی تھی کہ اس کی سخت گیری سے ہراساں ہو۔ اس کی حکومت قتل و سلب کی سزاؤں سے بالکل ناآشنا رہی۔ اب تازیانوں سے مجرموں کو نہیں پیٹا جاتا تھا، اب قتل عام کے احکام صادر نہیں ہوتے تھے، اب قوموں اور قبیلوں کو جلاوطن نہیں کیا جاتا تھا۔ برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے آشوری اور بابلی بادشاہوں کے تمام مظٓلم کے اثرات یک قلم محو کردیے۔ جلاوطن قومیں اپنے وطنوں میں لوٹائی گئیں، ان کے معبد اور معبود انہیں واپس دے دیے گئے، قدیم رسموں اور عبادتوں کے خلاف کوئی جبر و تشدد باقی نہیں رہا، ہر قوم کے ساتھ پوری طرح داد رسی کی گئی، ہر مذہب کے پیروؤں کو پوری مذہبی آزادی دی گئی، دنیا کی گزشتہ عالمگری دہشت ناکی کی جگہ ایک عالمگیر رواداری اور عفو و بخشش کا مبارک دور شروع ہوگیا۔ غور کرو، قرآن نے چند لفظوں کے اندر جو اشارات کردیے ہیں آج تاریخ کا داستان سراکس طرح اس کے ایک ایک حرف کی شرحح و تفصیل سنا رہا ہے۔ صحائف تورات کی تصریحات : اب چند لمحوں کے لیے ان تصریحات پر غور کرو جو تورات کے صحائف میں مندرج ہیں، کس طرح وہ سائرس کی شخصیت کی سب سے بڑی خصوصیت واضح کر رہے ہیں اور کس طرح قرآن کے اشارات بھی ٹھیک ٹھیک ان کی تصدیق ہیں؟ یسعیاہ نبی کی کتاب میں ہے کہ خداوند کہتا ہے خورس میرا چرواہا ہے، اور پھر یہ بھی کہا ہے کہ وہ میرا مسیح ہے اور یرمیاہ نبی کا بیان اوپر گزر چکا ہے کہ وہ بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے گا۔ اب دیکھو اس کی شخصیت ٹھیک ٹھیک ایک موعود اور منتظر نجات دہندہ کی شخصیت تھی یا نہ تھی؟ موعود و منتظر ہستی : جب ہم اس عہد کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر سائرس کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں، توبہ اول نظریہ حقیقت آشکارا ہوجاتا ہے کہ اس کا ظہور ٹھیک ٹھیک ایک ایسی شخصیت کا ظہور تھا جس کے لیے وقت کی تمام قومیں چشم براہ ہوں، قوموں کا انتظار ان کی زبانوں پر نہیں ہوتا، ان کے حالات کے قدرتی تقاضے میں ہوتا ہے، غور کرو اس عہد کی رفتار زمانہ کا قدرتی تقاضا کیا تھا؟ یہ تاریخ کے صبح تمدن کی وہ نمود تھی جس کی روشنی میں ہم انسانی حکمرانی کی ساری تاریکیاں پھیلی ہوئی دیکھتے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت تک انسانی فرمانروائی کی عظمت صرف قہر و غضب ہی کی نقاب میں رونما ہوئی تھی اور سب سے بڑا حکمراں وہی سمجھا جاتا تھا جو سب سے زیادہ انسانوں کے لیے خوفناک ہو۔ آشور بنی پال نینوا کا سب سے بڑا بادشاہ تھا اس لیے کہ وہ شہروں کے جلانے اور آبادیوں کے ویران کرنے میں سب سے زیادہ بے باک تھا۔ بابل کی نشاۃ ثانیہ میں نبو کدرزار سب سے بڑا فاتح تھا، اس لیے کہ قوموں کی ہلاکت اور مملکتوں کی ویرانی میں سب سے زیادہ قہر مان تھا۔ مصریوں، آکادیوں، ایلامیوں، آشوریوں اور بابلیوں سب میں انسانی حکومت و عظمت کے مظاہر خوفناکی اور دہشت انگیزی کے مظاہر تھے اور ان کی شخصیتوں نے دیوتائی الوہیت کی تقدیس سے ملکر انسانوں کے قتل و تعذیب کا ہولناک استحقاق حاصل کرلیا تھا۔ سائرس کے ظہور سے پچاس برس پہلے نبوکدرزار کی شہنشاہی کا ظہور ہوا اور ہمیں معلوم ہے کہ اس نے بیت المقدس پر پیہم تین حملے کر کے نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا زرخیز علاقہ تاراج و ویران کردیا، بلکہ فلسطین کی پوری آبادی کو اس طرح ہنکا کر بابل لے گیا جو زیفس کے لفظوں میں کوئی سخت سے سخت بے رحم قسائی بھی اس وحشت و خونخواری کے ساتھ بھیڑوں کو مذبح میں نہیں لے جاتا، پھر کیا ان حالات کا قدرتی تقاضا یہ نہ تھا کہ دنیا ایک نئی شخصیت کے لیے چشم براہ ہو؟ قومیں ایک نجات دہندہ کی راہ تک رہی ہوں؟ ایک ایسے نجات دہندہ کی جو انسانوں کے گلہ کے لیے خدا کا بھیجا ہوا چرواہا ہو جوان کی بیڑیاں کاٹے اور ان کے سروں کا بوجھ ہلکا کردے۔ جو دنیا کو اس ربانی صداقت کا سبق دے دے کہ انسانی حکمرانی نوع انسانی کی خدمت کے لیے ہونی چاہیے، دہشت انگیزی اور خوفناکی کے لیے نہیں؟ خدا کا بھیجا ہوا چرواہا؟ دنیا بادشاہوں کے ہاتھوں سے تنگ آچکی تھی، اب وہ ایک چرواہے کے لیے مضطرب تھی اور یسعیاہ نبی کے لفظوں میں خدا کا وہ فرستادہ چرواہا نمودار ہوگیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ زینوفن کے لفظوں میں قوموں نے اسے قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کے استقبال کے لیے بے اختیار لپکیں، کیونکہ وہ وقت کی جستجو کا قدرتی سراغ اور زمانہ کی طلب کا قدرتی جواب تھا اور اگر رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی کا خیر مقدم کیا جاتا ہے تو ممکن نہ تھا کہ انسانی شقاوت کی اس طولانی تاریکی کے بعد صبح سعادت کی اس جہاں تابی کا استقبال نہ کیا جاتا۔ غور کرو یسعیاہ نبی کا یہ جملہ صورت حال کی کیسی ہو بہو تصویر ہے کہ وہ میرا چرواہا ہوگا۔ وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا۔ میں اس کا داہناا ہاتھ پکڑ کے قوموں کو اس کے قابو میں دے دوں گا اور بادشاہوں کی کمریں اس کے آگے کھلوا ڈالوں گا۔ میں اس کے آگے چلوں گا۔ میں ٹیڑے راستے اس کے لیے سیدھے کردوں گا۔ (٢٨: ٤٤) سارے مورخ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایک چرواہے کی طرح آیا اور اس نے بندگان خدا کی رکھوالی کی۔ سب کہہ رہے ہیں کہ اس نے جس ملک کا رخ کیا اس کی شقاوت ختم ہوگئی وہ جس قوم کی طرف بڑھا، اس کی بیڑیاں کٹ گئیں، اس نے جس گروہ کے سر پر ہاتھ رکھا، اس کے سارے بوجھ ہلکے ہوگئے، وہ صرف بنی اسرائیل ہی کا نہیں بلکہ تمام قوموں کا نجات دہندہ تھا۔ خدا کا مسیح : یاد رہے کہ یسعیاہ نبی کی اسی پیشن گوئی میں اسے خدا کا مسیح بھی کہا ہے اور تورات کی اصطلاح میں مسیح وہ ہوتا ہے جسے خدا اپنی برکتوں کے ظہور کے لیے برگزیدہ کرلے اور خدا کے براہ راست ممسوح ہونے کی وجہ سے مقدس ہو۔ چنانچہ حضرت داؤد کی نسبت بھی آیا ہے کہ مسیح تھے، سائرس کی نسبت ببھی یہی کہا ہے اور اسی طرح بنی اسرائیل کی نجات کے لیے ایک آخری مسیح کی بھی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ سائرس کو مسیح کہنا، اس میں شک نہیں کہ اس کے تقدس اور الہی برگزیدگی کی سب سے زیادہ واضح اور قطعی اسرائیلی شہادت ہے۔ اس سلسلہ میں آخری وصف جو ذوالقرنین کا سامنے آتا ہے وہ اس کا ایمان باللہ ہے۔ قرآن کی آیتیں اس بارے میں ظاہر و قطعی ہیں کہ وہ ایک خدا پرست انسان تھا، آخرت پر یقین رکھتا تھا احکام الہی کے مطابق عمل کرتا تھا اور اپنی تمام کامرانیوں کو اللہ کا فضل و کرم سمجھتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سائرس کا بھی ایسا ہی اعتقاد و عمل تھا؟ لیکن تمام پھچلی تفصیلات پڑھنے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ نہیں تھا؟ یہودیوں کے صحائف کی واضح شہادت موجود ہے کہ خدا نے اسے اپنا فرستادہ اور مسیح کہا اور وہ نبیوں کا موعود و منتظر تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی ہستی خدا کی نافرمان ہستی نہیں ہوسکتی۔ جس کا داہنا ہاتھ خدا نے پکڑا ہو۔ اور جس کی ٹیڑھی راہیں وہ درست کرتا جائے۔ یقینا وہ خدا کا ناپسندیدہ بندہ نہیں ہوسکتا۔ خدا صرف انہی کا ہاتھ پکڑتا ہے جو برگزیدہ اور مقدس ہوتے ہیں اور صرف انہی کو اپنا فرستادہ کہتا ہے جو اس کے چنے ہوئے اور اس کی ٹھہرائی ہوئی راہوں پر چلنے والے ہوتے ہیں۔ اسرائیلی نبیوں کی شہادت : آج کل کے اصحاب نقد و نظر یسعیاہ نبی کی اس پیشین گوئی کو مشتبہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سائرس سے ڈیڑھ سو برس پہلے کی گئی تھی۔ لیکن اگر اس سے قطع نظر کرلی جائے جب بھی صورت حال پر کوئی اثر پڑتا، کیونکہ خود سائرس کے عہد میں جو اسرائیلی نبی موجود تھے ان کی شہادتیں موجود ہیں اور وہ صاف کہہ رہی ہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد تھا اور اسی حیثیت سے اس کا استقبال کیا تھا۔ حزقی ایل اور دانیال سائرس کے معاصر تھے اور دانیال دارا کے عہد تک زندہ رہے۔ ان دونوں کی تصریحات سائرس کی نسبت موجود ہیں۔ پھر دارا کے زمانہ میں حجی اور زکریاہ کے صحیفے مرتب ہوئے اور زرکسیس (اردشیریا ارتخششت) کے عہد میں عزرا اور نحمیاہ کا ظہور ہوا۔ ان سب کی شہادتیں بھی موجود ہیں، اور ان سب سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائرس بنی اسرائیل کی ایک موعود ہستی تھی اور خدا نے اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا تھا۔ اگر یہودیوں کا عام اعتقاد یہ تھا تو کیا ایک لمحہ کے لیے یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک بت پرست انسان کی نسبت ایسا اعقاد رکھنے کی جرات کرتے؟ فرض کرو یہ تمام پیشین گوئیاں سائرس کے ظہور کے بعد بنائی گئیں لیکن یہ ظٓہر ہے کہ یہودیوں ہی نے بنائیں اور یہودیوں ہی میں پھیلیں، حتی کہ ان کی مقدس کتاب میں داخل ہوگئیں۔ پھر کیا ممکن تھا کہ ایک بت پرست انسان کے لیے ایسی پیشین گوئیاں بنائی جاسکتیں؟ کیا ممکن تھا کہ ایک بت پرست کو اسرائیلی وحی کا ممدوح اور اسرائیلی نبیوں کا موعود بنایا جاتا؟ یہودیوں کا اعتراف : یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اجنبیوں اور غیر اسرائیلیوں کے خلاف یہودیوں کا تعصب بہت ہی سخت تھا۔ ان کے نسلی غرور پر اس سے زیادہ کوئی بات شاق نہیں گزرتی تھی کہ کسی غیر اسرائیلی انسان کی بزرگی کا اعتراف کریں۔ ظہور اسلام کے وقت بھی یہی عصبیت انہیں اعتراف حق سے روکتی تھی کہ (ولا تومنوا الا لمن تبع دینکم) تاہم وہ سائرس کی فضیلت کے آگے جھک گئے جو ان کے لیے ہر اعتبار سے اجنبی تھا اور نہ صرف اس کی بزرگی ہی کا اعتراف کیا بلکہ نبیوں کا موعود اور خدا کا برگزیدہ تسلیم کرلیا، یہ صورت حال اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ سائرس کی شخصیت ان کے لیے بڑی ہی محبوب شخصیت تھی اور اس کی فضیلتیں ایسی قطعی اور آشکارا تھیں کہ ان کے اعتراف میں نسلی عصبیت کا جذبہ بھی حائل نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے کہ ایک بت پرست انسان کے لیے جو اجنبی بھی ہو یہودیوں میں ایسی محبوبیت نہیں پیدا ہوسکتی تھی۔ اگر ایک بت پرست بادشاہ نے انہیں نجات دلائی تھی تو وہ اس کی شاہانہ عظمتوں کی مداحی کرتے مگر خدا کا مسیح اور برگزیدہ کبھی نہ سمجھتے۔ ضروری ہے کہ اس کی فضیلتیں مذہبی ہوں۔ ضروری ہے کہ مذہبی حیثیت سے بھی عقائد کا توافق موجود ہو۔ یہ یہودیوں کی پوری تاریخ میں غیر اسرائیلی فضیلت کے اعتراف کا تنہا واقعہ ہے، اور ممکن نہیں کہ ایک ایسے انسان کے لیے ہو جسے وہ مذہبی حیثیت سے محترم نہ سمجھتے ہوں۔ سائرس کے دین کا تعین : لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائرس کے دینی عقائد کے بارے میں ہماری معلومات کیا ہیں۔ تاریخی حیثیت سے یہ قطعی ہے کہ سائرس زردشت کا پیرو تھا جسے یونانیوں نے زار و سترو کے نام سے پکارا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ غالبا اسی کی شخصیت ہے جو اس نئی دعوت کی تبلیغ و عروج کا ذریعہ ہوئی۔ اس نے فارس اور میڈیا میں نئی شہنشاہی کی بنیاد ہی نہیں رکھی تھی بلکہ قدیم مجوسی دین کی جگہ نئے زردشتی دین کی بھی تخم ریزی کی تھی۔ وہ ایران میں نئی شہنشاہی اور نئے دین دونوں کا بانی تھا۔ زرتشت کے ظہور کا زمانہ : زردشت کی ہستی کی طرح اس کے ظہور کا زمانہ اور محل بھی تاریخ کا ایک مختلف فیہ موضوع بن گیا ہے اور انیسیوں صدی کا پورا زمانہ مختلف نظریوں اور قیاسوں کے ردو کد میں بسر ہوچکا تھا۔ بعضوں کو اس کی تاریخی ہستی ہی سے انکار ہوا۔ بعضوں نے شاہنامہ کی روایت کو ترجیح دی اور گشتاسب والا قصہ تسلیم کرلیا۔ بعضوں نے اس کا زمانہ ایک ہزار برس قبل مسیح قرار دیا۔ بعضوں نے یہ مدت دو ہزار برس قبل مسیح تک بڑھا دی۔ اسی طرح محل کے تعین میں بھی اختلاف ہوا۔ بعضوں نے باختر، بعضوں نے خراسان، بعضوں نے میڈیا اور شمالی ایران قرار دیا۔ لیکن اب بیسیوں صدی کی ابتدا سے اکثر محققین تاریخ گلڈنز کی رائے پر متفق ہوگئے ہیں اور عام طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ زردشت کا زمانہ وہی تھا جو سائرس کا تھا۔ اور گشتاسپ والی روایت اگر صحیح ہے تو اس سے مقصود وہی گشتاسپ ہے جو دارا کا باپ اور ایک صوبہ کا گورنر تھا۔ زردشت کا ظہور شمال مغربی ایران یعنی آزربائجان میں ہوا جسے اوستا کے حصہ دیندی داد میں ایریا نہ دیجو سے تعبیر کیا ہے البتہ کامیابی باختر میں ہوئی جس کا گورنر گشتاسپ تھا۔ اس تحقیق کے مطابق زردشت کا سال وفات تقریبا ٥٥٠ قبل سمیح سے لے کر ٥٨٣ قبل مسیح تک ہونا چاہیے اور سائرس کی تخت نشینی بالاتفاق ٥٥٠ قبل مسیح میں ہوئی۔ یعنی زردشت کی وفات کے بیس سال بعد، یا عین اسی سال۔ سائرس دین زردشتی کا پہلا حکمراں تھا : لیکن اگر سائرس زردشت کا معاصر تھا تو کیا کوئی براہ راست تاریخی شہادت موجود ہے جس سے اس کا دین زردشی قبول کرنا ثابت ہو؟ نہیں ہے لیکن اگر وہ تمام قرائن جمع کیے جائیں جو خود تاریخ کی روشنی نے مہیا کردیے ہیں تو یقینا ایک بالواسطہ شہادت نمایاں ہوجاتی ہے اور اس میں کچھ شبہ باقی نہیں رہتا کہ سائرس نہ صرف دین زردشتی پر عامل تھا بلکہ اس کا پہلا حکمران داعی تھا اور اسی نے یہ ورثہ اپنے جانشینوں کے لیے چھوڑا جو دو سو برس تک بلا استثنا دین زردشتی پر عمل پیرا رہے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ روشنی جن واقعات سے پڑتی ہے وہ دو ہیں اور دنوں کی تاریخی نوعیت مسلم ہے۔ پہلا واقعہ گوماتہ کی بغاوت کا جو سائرس کی وفات کے آٹھ برس بعد ظہور میں آئی۔ دوسرا دارا کے کتبے ہیں جن سے اس کے دینی عقائد کی نوعیت آشکارا ہوگئی ہے۔ سائرس کا بالاتفاق ٥٢٩ قبل مسیح میں انتقال ہوا اس کے بعد اس کا بیٹا کم بی سیز (کمبوچیہ یا کیقباد) تخت نشین ہوا۔ اس نے ٥٢٥ قبل مسیح میں مصر فتح کیا۔ لیکن ابھی مصر ہی میں تھا کہ معلوم ہوا ایران میں بغاوت ہوگئی ہے اور ایک شخص گوماتہ نامی نے اپنے آپ کو سائرس کا دوسرا لڑکا سمرڈیز (فارسی : بردیہ) مشہور کردیا ہے جو بہت پہلے مرچکا تھا یا مار ڈالا گیا تھا۔ یہ خبر سن کر وہ مصر سے لوٹا لیکن ابھی شام میں تھا کہ ٥٢٢ ق۔ م میں اچانک انتقال کرگیا۔ اب چونکہ سائرس کی براہ راست نسل سے کوئی شہزادہ موجود نہ تھا اس لیے اس کا عم زاد بھائی دارا بن گشتاسپ تخت نشین ہوگیا۔ دارا نے بغاوت فرو کی، گوماتہ کو قتل کیا، اور نئی مملکت کو اس کے عروج و کمال تک پہنچا دیا۔ دارا کی تخت نشینی بالاتفاق ٥٢١ ق م میں ہوئی ہے۔ پس اسا کا عہد سائرس کے انتقال سے آٹھ برس بعد شروع ہوگیا تھا۔ یونانی مورخوں کی شہادت موجود ہے کہ یہ بغاوت میڈیا کے قدیم مذہب کے پیروؤں کی بغاوت تھی اور خود دارا اپنے کتبہ بے ستون میں گومانہ کو موگوش لکھتا ہے۔ یعنی مجوسی، اور مجوسی مذہب سے مقصود قدیم مذہب ہے، تاریخ میں اس کا بھی سراغ ملتا ہے کہ پرانے مذہب کے پیروؤں کی سرکشی اس کے بعد بھی جاری رہی۔ چنانچہ دوسری بغاوت پر اور تش نامی مجوسی نے کی تھی جسے دارا نے ہمدان میں قتل کیا اور تیسری چتر خمہ نامی نے جواربیل میں قتل ہوا۔ دوسرا واقعہ دارا کے کتبوں سے روشنی میں آیا ہے، یہ دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ دارا نے بعض کتنے پہاڑوں کی محکم چٹانوں پر نقش کرائے جنہیں سکندر کا حملہ بھی برباد نہ کرسکا۔ ان میں سب سے زیادہ اہم کتبہ بے ستون کا ہے۔ جس میں دارا نے گوماتہ مجوسی کی بغاوت اور اپنی تخت نشینی کی سرگزشت قلمبند کی ہے۔ دوسرا استخر کا ہے جس میں اپنے تمام ماتحت ممالک کے نام گنوائے ہیں۔ ان دونوں میں وہ بار بار اہور موزدہ کا نام لیتا ہے اور اپنی تمام کامرانیوں کو اس کے فضل و کرم سے منسوب کرتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اہور مزدہ زردشت کی تعلیم کا اللہ ہے۔ ان دو واقعوں پر ایک تیسرے واقعہ کا بھی اضافہ کردینا چاہیے یعنی تاریخ میں کوئی اشارہ اس کا نہیں ملتا کہ کم بی سیز نے کوئی نیا دین قبول کیا تھا یاوارا کو اس طرح کا کوئی معاملہ پیش آیا تھا۔ ہیروڈوٹس نے دارا کی وفات سے پچاس ساٹھ برس بعد اپنی تاریخ لکھی ہے۔ اس کے لیے دارا کے عہد کے واقعات بالکل قریبی زمانے کے واقعات تھے اور لیڈیا میں فارسی حکومت قائم ہوجانے کی وجہ سے یونانیوں اور فارسیوں کے تعلقات ببھی روز بروز بڑھ رہے تھے۔ تاہم وہ کسی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں کرتا۔ پس سائرس کی وفات اور دارا کی تخت نشینی کے درمیان آٹھ برس کی جو مدت گزری ہے ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس عرصہ میں کسی نئی مذہبی دعوت کے ظہور و قبول کا کوئی واقعہ نہیں گزرا۔ اب غور کرو ان واقعات کا لازمی نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اگر سائرس کے بعد کم بی سیز اور دارا نے کوئی نئی دعوت قبول نہیں کی تھی اور دارا دین زردشتی پر عامل تھا تو کیا اس سے ثابت نہیں ہورہا ہے کہ دارا اور کم بی سیز سے پہلے زردشتی دین خاندان میں آچکا ہے؟ اگر سائرس کی وفات کے چند سال بعد قدیم مذہب کے پیرو اس لیے بغاوت کرتے ہیں کہ کیوں ایکنیا مزہب قبول کرلیا گیا ہے تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ سائرس نیا مذہب قبول کرچکا تھا اور تبدیل مذہب کا معاملہ نیا نیا پیش آیا تھا؟ پھر اگر زردشت سائرس کا معاصر تھا تو کیا یہ اس بات کا مزید ثبوت نہیں ہے کہ سب سے پہلے سائرس ہی نے یہ دعوت قبول کی تھی اور وہ فارس اور میڈیا کا نیا شہنشاہ بھی تھا اور نئی دعوت کا پہلا حکمراں دای بھی؟ زردشت اور سائرس : اتنا ہی نہیں بلکہ ہم گور کرتے ہیں تو اس زنجیر کی کڑیاں اور آگے بڑھتی جاتی ہیں۔ البتہ ہم اسے ایک قیاس سے زیادہ کہنے کی جرات نہیں کریں گے۔ اگر سائرس زردشت کا معاصر تھا اور سائرس کا ابتدائی زمانہ خاندان سے الگ اور گمنامی میں بسر ہوا تو کیا اسی زمانہ میں دونوں شخصیتیں ایک دوسرے کے قریب نہیں پہنچ جاتیں؟ اور کیا ایسا نہیں سمجھا جاسکتا کہ اسی زمانہ میں سائرس زردشت کی تعلیم و صحبت سے بہرہ مند ہوا؟ سائرس کی ابتدائی زندگی کی سرگزشت تاریخ کی ایک گم شدہ داستا ہے، پھر کیا اس داستان کا سراغ ہمیں ان دونوں شخصیتوں کی معاصرت کے واقعہ میں نہیں مل جاتا؟ مورخ زینوفن نے سائرس کی ابتدائی زندگی کا افسانہ ہمیں سنایا ہے، اس افسانہ میں ایک پراسرار شخص کی پرچھائیں صاف نظر آرہی ہے جو دشت و جبل کے اس پر دردہ قدرت کو آنے والے کارناموں کے لیے تیار کر رہا تھا۔ کیا اس پر چھائیں میں ہم خود زردشت کی مقدس شخصیت کی نمود نہیں دیکھ رہے؟ اگر زردشت کا ظہور شمال مغربی ایران میں ہوا تھا اور اگر سائرس کی ابتدائی گمنامی کا زمانہ بھی شمالی کوہستانوں میں بسر ہوا، تو کیوں یہ دونوں کڑیاں باہم ملکر ایک گمشدہ داستان کا سراغ نہ بن جائیں؟ سائرس کی شخصیت وقت کے تمام ذہنی اور اخلاقی رجحانات کے برخلاف ایک انقلاب انگیز شخصیت تھی، ایسی شخصیت کسی انقلاب انگیز داعی کی دعوت ہی سے پیدا ہوسکتی ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ وہ داعی شخصیت زردشت ہی کی تھی۔ بہرحال سائرس نے اپنی ابتدائی گمنامی کے عہد میں نئی دعوت قبول کی ہو یا تخت نشینی کے بعد لیکن یہ قطعی ہے کہ وہ دین زردشتی پر عام تھا۔ دین زردشتی کی حقیقی تعلیم : لیکن اگر ذوالقرنین دین زردشتی پر عامل تھا اور قرآن ذوالقرنین کے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا اثبات کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسے ملہم من اللہ قرار دیتا ہے تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ زردشت کی تعلیم دین حق کی تعلیم تھی؟ یقینا لازم آتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ اس لزوم سے بچنے کی ہم کوشش کریں۔ کیونکہ یہ حقیقت اب پوری طرح روشنی میں آچکی ہے کہ زردشت کی تعلیم سرتاسر خدا پرستی اور نیک عملی کی تعلیم تھی اور آتش پرستی اور ثنویت کا اعتقاد اس کا پیدا کیا ہوا اعتقاد نہیں ہے بلکہ قدیم میددی مجوسیت کا رد عمل ہے۔ جس طرح روم کی مسیحیت قدیم رومی بت پرستی کے رد عمل سے محفوظ نہ رہ سکی اسی طرح زردشت کی خالص خدا پرستانہ تعلیم بھی قدیم مجوسیت کے رد عمل سے بچ نہ سکی۔ خصوصا ساسانی عہد میں جب وہ از سر نو مدون ہوئی تو اصل تعلیم سے بالکل ایک مختلف چیز بن چکی تھی۔ میڈیا کا قدیم مذہب : زردشت کے ظہور سے پہلے فارس اور میڈیا کے باشندوں کے عقائد کی بھی نوعیت وہی تھی جو انڈو یوروپین آریاؤں کی تمام دوسری شاخوں کی رہ چکی ہے۔ ہندوستان کے آریوں کی طرح ایران کے آریوں میں بھی پہلے مظاہر قدرت کی پرستش ہوئی، پھر سورج کی عظمت کا تصور پیدا ہوا، پھر زمین میں آگ نے سورج کی قائم مقامی پیدا کرلی کیونکہ تمام مادی عناصر میں رشنی اور جرات کا سرچشمہ وہی تھی، یونانیوں میں ایسے دیوتاؤں کا تصور پیدا ہوا جن سے اچھائی اور برائی دونوں ظہور میں آتی تھیں لیکن ایرانیوں کے تصور نے دیوتاؤں کو دو متقابل قوتوں میں تقسیم کردیا۔ ایک قوت پاک روحانی ہستیوں کی تھی جو انسان کو زندگی کی تمام خوشیاں بخشتی تھی، دوسری قوت برائی کے عفریتوں کی تھی جو نوع انسان کے جانی دشمن تھے، روحانی ہستیوں کی نمود روشنی میں ہوئی اور شیطانوں کی تاریکی میں، نور و ظلمت کی یہی کمشکش ہے جس سے تمام اچھے برے حوادث ظہور میں آتے ہیں۔ چونکہ روشنی پاک روحانیتوں کی نمود ہے اس لیے ہر طرح کی عبادتیں اور قربانیاں اسی کے لیے ہونی چاہیں۔ اس روشنی کا مظہر آسمان میں سورج اور زمین میں آگ تھی۔ اچھائی برائی کا جس قدر تصور تھا وہ یونانیوں کی طرح صرف مادی زندگی کی راحتوں اور محرومیوں ہی میں محدود تھا۔ روحانی زندگی اور اس کی سعادت و شقاوت کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوا تھا۔ آگ کی پرسش کی قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور اس کے خاص پچاریوں کا ایک مقدس گروہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے افراد موگوش کے لقب سے پکارے جاتے تھے، آگ چل کر اسی لقب نے آتش پرستی کا مفہوم پیدا کرلیا۔ زردشت کی تعلیم : لیکن زردشت نے ان تمام عقائد سے انکار کدیا، اس نے خدا پرستی، روحانی سعادت و شقاوت اور آکرت کی زندگی کا عقیدہ پیدا کیا۔ اس نے کہا، یہاں نہ تو خیر کی بہت سی روحانی ہستیاں ہیں، نہ شر کے بہت سے عفریت، یہاں صرف ایک اہور موزدہ کی ہستی ہے، جو یگانہ ہے، نور ہے، قدوس ہے، حق ہے، حکیم ہے، قدیر ہے، اور تمام کائنات ہستی کی خالق ہے، کوئی ہستی نہیں جو اس کے مثل ہو یا اس کے ہمتا ہو یا اس کی شریک ہو تم نے جن روحانی قوتوں کو خیر کا خالق سمجھ رکھا ہے وہ خالق و قادر نہیں ہیں، بلکہ اہورموزدہ کے پیدا کیے ہوئے امش سپند ہیں۔ یعنی ملائکہ ہیں اور شر کا ذریعہ دیووں کی خوفناک قوت نہیں ہے بلکہ انردمین (اہرمن) کی ہستی ہے۔ یعنی شیطان کی ہستی ہے، یہ اپنی وسوسہ اندازیوں سے انسان کو تاریکی کی طرف لے جاتی ہے۔ تعلیم کی عملی خصوصیت : زردشت کی تعلیم کا عملی پہلو سب سے زیادہ اہم ہے، یونانیوں کی طرح اس کا اخلاقی تصور مذہب سے الگ نہیں تھا بلکہ عین مذہب میں تھا، اس نے مذہب کو محض ایک قومی اور ملکی مذہب کی شان نہیں دی بلکہ انفرادی زندگی کا روزانہ دستور العمل بنا دیا۔ نفس کی طہارت اور اعمال کی درستی اس کی تعلیم کا اصلی محور ہے انسانی زندگی کا ہر خیال، ہر قول، ہر فعل ضروری ہے کہ اس معیار پر پورا اترے۔ فکر کی راستی، گفتار کی راسی اور کردار کی راستی پرستار ان اہوز موزدہ کے لیے تین بنیادی اصول تھے۔ پروفیسر گرنڈی کے لفظوں میں اس کا مذہب حقیقت اور عمل کا مذہب تھا۔ یونانی مذہب کی طرح محض رسموں اور ریتوں کا مذہب نہ تھا۔ اس نے مذہب کو ایرانیوں کی روزانہ زندگی کی ایک حقیقت بنا دیا اور اخلاق اس مذہب کا مرکزی عنصر تھا۔ عبادت کا تصور : اس کی عبادت کا تصور ہر طرح کے اصنامی اثرات سے پاک تھا، عبادت ہمیں اس لیے نہیں کرنی چاہیے کہ خدا کے غضب و انتقام سے بچیں بلکہ اس لیے کہ برکتیں اور سعادتیں حاصل کریں۔ اگر ہم اہور موزدہ کی عبادت نہیں کریں گے تو وہ ہمیں یونانی اور ہندوستانی دیوتاؤں کی طرح اپنے غضب کا نشانہ نہیں بنائے گا، لیکن خود ہم سعادت سے محروم رہ جائیں گے۔ آخرت کی زندگی : اس کی تعلیم کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو آخرت کی زندگی کا اعتقاد ہے، وہ کہتا ہے انسان کی زندگی صرف اتنی ہی نہیں ہے جتنی اس دنیا میں گزرتی ہے، اس کے بعد بھی ایک زندگی پیش آئے گی۔ اس زندگی میں دو عالم ہوں گے ایک اچھائی اور سعادت کا، دوسرا برائی اور شقاوت کا، جن لوگوں نے اس زندگی میں نیک عمل کیے ہیں وہ پہلے عالم میں جائیں گے، جنہوں نے برے عمل کیے ہیں، دوسرے عالم میں اور اس کا فیصلہ اس دن ہوگا جسے وہ آخری فیصلہ کا دن قرار دیتا ہے۔ بقائے روح کا مسئلہ اس کے مذہب کی بنیادی چٹان ہے، انسان فانی ہے مگر اس کی روح فانی نہیں، وہ اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور ثواب و عقاب کے دو عالموں میں سے کسی عالم میں داخل ہوجاتی ہے۔ پیروان زردشت کا اخلاقی تقدم : موجودہ عہد کے تمام محققین تاریخ متفق ہیں کہ زردشت کی تعلیم نے انسان کے اخلاقی اور فکری ارتقا میں نہایت موثر حصہ لیا ہے اس نے پانچ سو برس قبل مسیح ایرانیوں کو اخلاقی پاکیزگی کی ایک ایسی سطح پر پہنچا دیا تھا جہاں سے ان کے معاصر یونانیوں اور رومیوں کی زندگی بہت ہی پست دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسا مذہب جس کی تعلیم کا رخ سرتاسر انفرادی زندگی کی پاکیزگی کی طرف تھا اور جو اپنے پیروؤں کی اخلاقی روش کے لیے نہایت بلند مطالبے رکھتا تھا ضروری تھا کہ اعمال و خصائل کے بہتر سانچے ڈھال دے اور تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ اس نے ڈھال دیے تھے۔ یہ شہادت کن لوگوں کے قلم سے نکلی ہے ؟ ان لوگوں کے قلم سے جو کسی طرح بھی ایرانیوں کے دوست نہیں سمجھے جاسکتے۔ پانچویں اور چوتھی قبل مسیح کا تمام زمانہ ایرانیوں اور یونانیوں کی مسلسل آویزش کا زمانہ رہا ہے اور ہیروڈوٹس اور زینوفون نے جب تاریخیں لکھی ہیں تو یونان کے حریفانہ جذبات پوری طرح ابھرے ہوئے تھے۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایرانیوں کی اخلاقی فضیلت سے انکار نہیں کرسکتے۔ انہیں ماننا پڑتا ہے کہ ان میں بعض ایسی عظیم فضیلتیں ہیں جو یونانیوں میں نہیں پائی جاتیں۔ ہم یہاں پروفیسر گرنڈی کے الفاظ پھر مستعار لیں گے کہ ایرانی سچائی اور دیانت کی ایسی فضیلتیں رکھتے تھے جو اس عہد کی قوموں میں عام طور پر کھائی نہیں دیتی۔ ان کی راست بازی، رحم دلی، شجاعت اور بلند نظری کا سب اعتراف کرتے ہیں اور یہ یقینا زردشت کی تعلیم کے لازمی نتائج تھے۔ دارا کے فرامین : دارائے اول کا زمانہ اس مذہب کی بلند آہنگی کا شاندار زمانہ ہے اس کے کتبوں میں ہمیں زردشتی تعلیم کی صدائیں صاف سنائی دے رہی ہیں اور ان سے ہم حقیقت حال معلوم کرلے سکتے ہیں۔ استخر کا کتبہ ڈھائی ہزار برس پیشتر کی یہ منادی آج تک بلند کر ررہا ہے : خدائے برتر اہور موزدہ ہے، اسی نے زمین پیدا کی، اسی نے آسمان بنایا، اسی نے انسان کی سعادت بنائی اور وہی ہے جس نے دارا کو بہتوں کا تنہا حکمراں اور آئین ساز بنایا۔ دارا اعلان کرتا ہے کہ اہور موزدہ نے اپنے فضل سے مجھے بادشاہت دی، اور اسی کے فضل سے میں نے زمین میں امن و امان قائم کیا، میں اہور موزدہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے، میرے خاندان کو، اور ان ملکوں کو محفوظ رکھے۔ اے اہور موزدہ میری دعا قبول کر۔ صراط مستقیم کی دعوت : اے انسان ! اہور موزدہ کا تیرے لیے حکم یہ ہے کہ برائی کا دھیان نہ کر۔ صراط مستقیم کو نہ چھوڑ گناہ سے بچتا رہ۔ یاد رہے کہ دارا سائرس کا معاصر تھا اور اس کی وفات سے صرف آٹھ برس بعد تخت نشین ہوا، پس دارا کی صداؤں میں ہم خود سائرس کی صدائیں سن رہے ہیں، اس کا بار بار اپنی کامرانیوں کو اہور موزدہ کے فضل و کرم سے منسوب کرنا ٹھیک ٹھیک ذوالقرنین کے اس طریق خطاب کی تصدیق ہے کہ (ھذا رحمۃ من ربی) زردشتی مذہب کا انحطاط و تغیر : لیکن چوتھی صدی قبل مسیح کے بعد زردشتی مذہب کا تنزل شروع ہوگیا۔ ایک طرف قدیم مجوسی مذہب نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا، دوسری طرف خارجی اثرات بھی کام کرنے لگے۔ یہاں تک کہ انٹانین (Antonine) شہنشاہ روم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سارئس اور دارا کے عہد کے زردشتی مذہب نے بالکل ایک دوسری ہی شکل اختیار کرلی ہے۔ پھر سکندر اعظم کی فتوحات کا سیلاب اٹھا اور وہ ایران کی دو صد سالہ شہنشاہی ہی نہیں بلکہ اس کا مذہب بھی بہا لے گیا۔ ایرانیوں کا قوی افسانہ کہتا ہے کہ زردشت کا مقدس صحیفہ اوستا بارہ ہزار بیلوں کی مدبوغ کھالوں پر آب زر سے لکھا ہوا تھا جو سکندر کے حملہ استخر میں جل کر راکھ ہوگیا۔ بارہ ہزار بیلوں کی کھلا کا قصہ تو محض مبالغہ ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ بخت نصر کے حملہ بیت المقدس نے جو سلوک تورات کے ساتھ کیا تھا وہی سکندر کے حملہ ایران نے اوستا کے ساتھ کیا۔ یعنی دونوں جگہ مذہب کا اصلی نوشتہ مفقود ہوگیا۔ پھر جب پانچ سو پداش برس کے بعد ساسانی دور حکومت شروع ہوا تو مذہب زردشت کی از سر نو تدوین کی گئی اور جس طرح قید بابل کے بعد عزرا نے نئی تورات مرتب کی تھی اسی طرح ارد شیر بابکانی نے از سرنو اوستا کا نسخہ مرتب کرایا لین اب مذہب کی تمام حقیقی خصوصیات طرح طرح کی تبدیلیوں، تحریفوں اور اضافوں سے یک قلم مسخ ہوچکی تھیں۔ چنانچہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ساسانی عہد کا مذہب قدیم مجوسیت، زردشیت اور یونانیت کا ایک مخلوط مرکب ہے۔ اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر مجوسیت ہی نے فراہم کیا ہے۔ اسی ساسانی اوستا کا ایک ناقص محرف ٹکڑا ہے جو ہندوستان کے پارسیوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے اور جس کے لیے ہم ایک فرنچ مستشرق آنک تیل کی اولو العزمیوں اور علمی قربانیوں کے شکر گزار ہیں۔ اہور موزوہ کی مزعومہ شبیہ : اس سلسلہ میں ایک بحث طلب سوال اور ہے ضروری ہے کہ اس پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ یہ مسلم ہے کہ پیروان زردشت میں بت پرستی کی کوئی شکل بھی سر نہ اٹھا سکی۔ قدیم مجوسی مذہب میں بھی اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا، لیکن ایران میں دسارا اور اس کے بعد کے عہد کے جو آثار ملے ہیں ان میں ایک خاص صورت کا نقش پایا جاتا ہے۔ یہ بادشاہ کی تصویر نہیں ہوسکتی کیونکہ بادشاہ کی شخصیت مرقع میں الگ نمایاں ہے، اس کا محل ہر جگہ بلندی میں اور سب سے اوپر واقع ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ کود بادشاہ سے بھی ایک بلند تر ہستی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہستی ہے ؟ سب سے پہلے یہ صورت بے ستوں کے مرقع میں زیر بحث ہوئی، جب ١٨٤٧ ء میں کرنیل رالین سن نے اپنی شرح و حل کے ساتھ اصل مرقع کا چربہ شائع کیا، پھر یہی صورت متعدد نقوش میں ملی۔ مثلا دارا کی سرکاری مہر کے مرقع میں، نقش رستم میں جو دراصل دارا کی قبر ہے، استخر کے محل شاہی کے دروازہ پر جو غالبا درمیانی دروازہ ہے۔ رالین سن سے پہلے سر رابرٹ کیر پورٹر نے یہ نظریہ قائم کرلیا تھا کہ یہ کوئی مافوق انسانیت ہستی ہونی چاہیے جو خود بادشاہ سے بھی اوپر اپنی جگہ رکھتی ہے۔ رالین سن ایک قدم اور آگے بڑھا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ یہ اہور موزدہ کی ہستی ہے یعنی خدا کی۔ چنانچہ اس وقت سے یہ رائے برابر مقبول ہوتی گئی۔ اب عام طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ایرانی اگرچہ بت پرستی سے مجتنب رہے لیکن انہوں نے اہور موزدہ کی ہستی کے لیے ایک مرموز (Symbilic) تشخص کا تصور ضرور قائم کرلیا تھا جو ان تصویریں میں نمایاں ہے اور یہ مصریوں اور آشوریوں کے مرموز تجسم کا اثر تھا جس سے وہ بھی متاثر ہوگئے۔ لیکن ١٩١٢ ء سے (جبکہ میں نے پہلے پہل ایرانی آثار قدیمہ کا بغور مطالبہ کیا) میں محسوس کر رہا ہوں کہ یہ قیاس اول دن سے غلط رخ پر چلا ہے اور تمام تاریخی اور عقلی قرائن اس کے خلاف ہیں : اولا : تمام تاریخی شہادتیں اور خود پارسیوں کا مسلسل تعامل ثابت کر رہا ہے کہ انہوں نے الوہیت کا تصور کبھی کسی انسانی جسم و صورت میں نہیں کیا، اور کبھی کسی مجسمہ کو تقدیس کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ثانیا : اگر امتداد زمانہ سے یہ چیز پیدا بھی ہوگئی ہو جب بھی کسی طرح یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ خود دارا کے عہد میں پیدا ہوگئی ہو جو زردشت کی تعلیم کا ابتدائی عہد تھا اور جب یونانی مورخوں کی شہادت کے مطابق ایرانی، یونانی بت پرستی کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ ثالثا اس شبیہ میں کوئی ایسی بات نہیں جو معبودیت و الوہیت کی کوئی خاص شان رکھتی ہو۔ ہر جگہ اس کی ایک ہی صورت اور وضع ہے اور وہ ایک معمولی انسان کی ہے جس نے اس زمانہ کا عام لباس پہن رکھا ہے۔ وہی لبھاس جو خود دارا اور اس کے جانشینوں کا تصویروں میں دکھایا گیا ہے۔ صڑف اتنی بات اس میں زیادہ ہے کہ ایک حلقہ اس کی کمر سے نیچے چاروں طرف بنایا گیا ہے، اگر یہ رائے تسلیم ببھی کرلی جائے، جب بھی یہ اس کے لیے کافی نہیں کہ محض یہ مشتببہ حلقہ اور مشتببہ لہریں ایک خالق ہستی کے تصور کے لیے پیروان زردشت کا منتہائے خیال تھا۔ رابعا : اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس حلقہ اور لہروں میں ایک ماورائے انسانیت ہستی کا تصور مرموز تھا جب بھی یہ اہور موزدہ کی ہستی کیوں ہو جس کی نسبت زردشت نے تقدیس و علو کا اس درجہ بلند تصور قائم کیا ہے ؟ کیوں یہ کسی ایسے انسان کی صورت نہ ہو جو اگرچہ انسان تھا مگر اپنی انسانیت کی رفعت و تقدیس کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہستی سمجھا جاتا تھا؟ مثلا خدا کی ایک فرستادہ ہستی؟ بہرححال اس رخ پر ہم جس قدر بڑھتے ہیں یہ بات واضح ہوتی جاتی ہے کہ اسے اہور موزدہ کی ہستی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ یا تو خود زردشت کی تصویر ہے جو ایرانی مذہب کا بانی تھا، یا سائرس کی ہے جو اس مذہب کا حکمراں پیغمبر اور ہخامنسی شہنشاہی کا پہلا تاجدار تھا۔ چونکہ اس صورت کے بائیں ہاتھ میں ہر جگہ ایک حلقہ دکھلایا گیا ہے اور قدیم تصورات میں حلقہ کی شکل حکومت و مالکیت کی علامت سمجھی جاتی تھی اس لیے زیادہ قرین قیاس یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سائرس کی تصویر ہو۔ کیا ذوالقرنین نبی تھا؟ جہاں تک قرآن کی تصریحات کا تعلق ہے ایک اہم سوال اور باقی رہ گیا ہے، قرآن میں ہے (قلنا یا ذالقرنین) ہم نے کہا اے ذوالقرنین، اس خطاب کا مطلب کیا ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین براہ راست وحی الہی سے مخاطب تھا؟ مفسرین نے اس پر طبع آزمائیاں کی ہیں اور چونکہ امام رازی سکندر مقدونی کو ذو القرنین بنانا چاہتے ہیں، اور وہ بنتا نہیں، اس لیے مجبور ہوئے ہیں کہ یہاں قلنا کے منطوق پر اس کے مفہوم کو ترجیح دیں۔ اس میں شک نہیں کہ قلنا کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بالواسطہ خطاب ہو۔ یعنی اس عہد کے کسی پیغمبر کے ذریعہ سے ذوالقرنین کو مخاطب کیا گیا ہو۔ جیسا کہ (فقلنا اضربوہ ببعضھا) میں ہے۔ یا خطاب قولی نہ ہو، تکوینی ہو، جیسا کہ (قیل یارض ابلعی ماءک ویسماء اقلعی) اور (قلنا ینارکونی بردا وسلما علی ابراہیم) وغیرہا آیات میں ہے۔ لیکن اس طرح کا مطلب جب ہی قرار دینا اہیے کہ اس کے لیے قوی وجوہ موجود ہوں، اور یہاں کوئی وجہ موجود نہیں۔ آیت کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ ذوالقرنین کو اللہ نے براہ راست مخاطب کیا اور اس پر اللہ کی وحی نازل ہوئی تھی۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ وحی نبوت کی وحی تھی یا اس طرح کی وحی تھی جیسی حضرت موسیٰ کی والدہ کی نسبت بیان کی گئی ہے کہ (و اوحینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ) تو صحابہ و سلف سے جو تفسیر منقول ہے وہ یہی ہے کہ ذوا لقرنین نبی تھا اور متاخرین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن کثیر بھی اسی تفسیر کی تائید کرتے ہیں۔ اور غور کرو قرآن کا یہ بیان سائرس پر کس طرح ٹھیک ٹھیک منطبق ہورہا ہے؟ تاریخ اس کی پیغمبرانہ شخصیت کی شہادت دے ہی ہے اور عہد عتیق کے انبیاء اسے صریح خدا کا برگزیدہ اس کا مسیح اور اس کی مرضی پوری کرنے والا کہہ رہے ہیں۔ عزرا نبی کی کتاب میں اس کا جو فرمان تعمیر بیت المقدس کے لیے نقل کیا گیا ہے اس میں وہ خود اعلان کرتا ہے : خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہودیا کے ملک میں اس کی عبادت کے لیے ایک ہیکل تعمیر کروں، اس کا یہ کہنا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے ٹھیک ٹھیک (قلنا یا ذالقرنین) کی تصدیق ہے ہم اس سے پہلے اس کی خدا پرستی کے اثبات میں جو کچھ لکھ چکے ہیں اس میں سے ہر بات ٹھیک ٹھیک اس کی نبوت کے ثبوت میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ یاجوج و ماجوج : اب صرف ایک معاملہ کی تشریح باقی رہ گئی ہے یعنی یاجوج و ماجوج سے کون سی قوم مراد ہے؟ اور جو سد سائرس نے بنائی تھی اس کی تاریخی نوعیت کیا ہے؟ قرآن مجید نے یاجوج اور ماجوج کا دو جگہ ذکر کیا ہے۔ ایک تو یہاں ہے، دوسرا سورۃ انبیاء میں ہے : (حتی اذا فتحت یاجوج و ماجوج وھم من کل حدب ینسلون) یاجوج اور ماجوج کا نام سب سے پہلے عہد عتیق میں آیا ہے۔ حزقیل بنی کتاب کتاب میں جنہیں بخت نصر اپنے آخری حملہ بیت المقدس میں گرفتار کر کے بابل لے گیا تھا اور جو سائرس کے ظہور تک زندہ رہے، یہ پیشین گوئی ملتی ہے : حزقی ایل نبی کی پیشین گوئی : اور خداوند کا کلام مجھ تک پہنچا، اس نے کہا اے آدم زاد ! تو جوج کی طرف اپنا منہ کر کے اس کے برخلاف نبوت کر، جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روس، مسک اور توبال کا سردار ہے۔ خداوند یہوداہ یوں کہتا ہے کہ میں تیرا مخالف ہوں۔ میں تجھے پھرا دوں گا۔ تیرے جبڑوں میں بنسیان ماروں گا، تیسرے سارے لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جو جنگی پوشاک پہنے جو پہریاں اور سپر لیے ہوئے ہیں اور سب شمشیر بکف ہیں، کھینچ نکالوں گا۔ اور میں ان کے ساتھ فارس اور کوش اور فوط کو بھی کھینچ نکالوں گا جو سپر لیے ہوئے اور خود پہنے ہوں گے۔ نیز جو مر اور شمال بعید کے اطراف کے باشندگان تجربہ اور ان کا سارا لشکر۔ اس کے بعد دور تک تفصیلات چلی گئی ہیں، اور چار باتیں خصوصیت کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جوج شمال کی طرف سے آئے گا تاکہ لوٹ مار کرے، دوسری یہ کہ ماجوج اور ان پر جو جزیزروں میں سکونت رکھتے ہیں تباہی آئے گی، تیسری یہ کہ جو لوگ اسرائیل کے شہروں میں بسنے والے ہیں وہ بھی ماجوج کے مقابلہ میں حصہ لیں گے اور ان کے بے شمار ہتھیار ان کے ہاتھ آئیں گے۔ چوتھی یہ کہ ماجوج کی تباہی کا گورستان مسافروں کی وادی میں بنے گا جو سمندر کی پورب میں ہے، ان کی لاشیں عرصہ تک وہاں پڑی رہیں گی۔ لوگ انہیں گاڑتے رہیں گے تاکہ رہ گزر صاف ہوجائے۔ یہ واضح رہے کہ اس پیشین گوئی سے پہلے سارئس کے ظہور اور یہودیوں کی آزادی و خوش حالی کی پیشین گوئی بیان کی جاچکی ہے اور اس پیشین گوئی کا محل ٹحیک اس مکاشفہ کے بعد ہے جس میں حزقی ایل نبی نے بنی اسرائیل کی سوکھی ہڈیوں کو زندہ ہوتے دیکھا تھا اور جسے قرآن نے بھی سورۃ بقرہ کی آیت (او کالذی مر علی قریۃ وھی خاویۃ علی عروشھا) میں بیان کیا ہے۔ پس ضروری ہے کہ جوج اور ماجوج کا معاملہ بھی اسی زمانے کے لگ بھگ پیش آنے والا ہو۔ یعنی سائرس کے زمانہ میں، اور یہ سائرس کے ذو القرنین ہونے کا ایک مزید ثبوت ہے۔ کیونکہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ اسی نے یاجوج و ماجوج کے حملوں کی روک تھام کے لیے ایک سد تعمیر کی تھی۔ عہد عتیق کے بعد یہ نام ہمیں مکاشفات یوحنا میں ملتا ہے۔ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب ہزار برس پورے ہوچکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور وہ ان قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی، یعنی یاجوج و ماجوج کو گمراہ کرنے اور لڑنے کے لیے جمع کرنے لگے۔ ان کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا، وہ تمام زمین کی وسعتوں پر چڑھ جائیں گے۔ گاگ اور مے گاگ : یاجوج اور ماجوج کے لیے یورپ کی زبانوں میں (Gog) اور (Magog) کے نام مشہور ہوگئے ہیں اور شارحین تورات کہتے ہیں کہ یہ نام سب سے پہلے تورات کے ترجمہ سبعینی میں اختیار کیے گئے تھے۔ لیکن کیا اس لیے اختیار کیے گئے کہ جوج اور ماجوج کا یونانی تلفظ یہی ہوسکتا تھا یا خود یونانی میں پہلے سے یہ نام موجود تھے؟ اس بارے میں شارحین کی رائیں مختلف ہیں۔ لیکن زیادہ قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں نام اسی طرح یا اس کے قریب قریب یونانیوں میں بھی مشہور تھے۔ شمال مشرقی قبائل : اب سوال یہ ہے کہ یہ کون قوم تھی؟ تمام تاریخی قرائن متفق طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سے مقصود صڑف ایک ہی قوم ہوسکتی ہے، اس کے سوا کوئی نہیں، یعنی شمال مشرقی میدانوں کے وہ وحشی مگر طاقتور قبائل جن کا سیلاب قبل از تاریخ عہد سے لے کر نویں صدی مسیحی تک برابر مغرب کی طرف امنڈ تا رہا، جن کے مشرقی حملوں کی روک تھام کے لیے چینیوں سینکڑوں میل لمبی دیوار بنانی پڑی تھی، جن کی مختلف شاخیں تاریخ میں مختلف ناموں سے پکاری گئی ہیں۔ اور جن کا آخری قبیلہ یورپ میں میگر کے نام سے روشناس ہوا اور ایشیا میں تاتاریوں کے نام سے، اسی قوم کی ایک شاخ تھی جسے یونانیوں نے سیتھین (Scythian) کے نام سے پکار اہے، اور اسی کے حملوں کی روک تھام کے لیے سائرس نے سد تعمیر کی تھی۔ منگولیا : شمال مشرق کے اس علاقہ کا بڑا حصہ اب منگولیا کہلاتا ہے۔ لیکن منگول لفظ کی ابتدائی شکل کیا تھی؟ اس کے لیے جب ہم چین کے تاریخی مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں اسی طرف رجوع ہونا چاہیے کیونکہ وہ منگولیا کے ہم سایہ میں ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم نام موگ تھا، یقینا یہی موگ ہے جو چھ سو برس قبل مسیح یونانیوں میں میگ اور مے گاگ پکارا جاتا ہوگا، اور یہی عبرانی میں ماجوج ہوگیا۔ چین کی تاریخ میں ہمیں اس علاقہ کے ایک اور قبیلہ کا ذکر بھی ملتا ہے جو یواچی (Yueh-Chi) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی یواچی ہے جس نے مختلف قوموں کے مخارج و تلفظ سے گزر کر کوئی ایسی شکل اختیار کرلی تھی کہ عبرانی میں یاجوج ہوگیا۔ اس امر کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ ان نتائج پر ایک اجمالی نظر ڈال لی جائے جو مختلف قوموں کے نسلی، جغرافیائی اور لغوی علائق کی بحث و تنقیب سے پیدا ہوئے ہیں اور جو موجودہ زمانے میں تاریخ اقوام کے طے شدہ مبادیات ہیں۔ منگولیا کا قبائلی سرچشمہ اور اقوام قدیم کا انشعاب : کرہ ارضی کی بلند سطح وہ حصہ جو شمال مشرق میں واقع ہے اور جسے آج کل منگولیا اور چینی ترکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے تاریخ قدیم کی بے شمار قوموں کا ابتدائی گہوراہ رہ چکا ہے۔ یہ نسل انسانی کا ایک ایسا سرچشمہ تھا جہاں پانی برابر ابلتا اور جمع ہوتا رہتا اور جب بہت بڑھ جاتا تو مشرق و مغرب کی طرف امنڈنا چاہتا۔ اس کے مشرق میں چین تھا، مغرب و جنوب میں مغربی اور جنوبی ایشیا اور شمال مغرب میں یورپ۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے قوموں اور قبیلوں کے سیلاب امنڈتے رہے، کچھ وسط ایشیا میں آباد ہوگئے، کچھ آگے بڑھے اور شمال یورپ تک پہنچ گئے، کچھ وسط ایشیا سے نیچے اتر گئے اور جنوبی اور مغربی ایشیا پر قابض ہوگئے، یہ قبائل جو اس علاقہ سے نکلتے تھے مختلف ملکوں میں بس کر وہاں کی خصوصیت اختیار کرلیتے تھے اور رفتہ رفتہ ایک مقامی قوم بن جاتے تھے لیکن ان کا وطنی سرچشمہ اپنی اصلی حالت پر باقی رہتا۔ یہاں تک کہ پھر بقائل کا ایک نیا سیلاب اٹھتا اور کسی نئے علاقہ میں پہنچ کر نئی مقامی قومیت کی تخلیق کردیتا۔ یہ علاقہ صدیوں تک اپنی اصلی وحشیانہ حالت پر باقی رہا لیکن جو قبائل یہاں سے نکل نکل کر مختلف ملکوں میں بستے گئے انہوں نے مقامی خصوصیات اختیار کر کے تہذیب و تمدن کی طرف بڑھنا شروع کردیا، یہاں تک کہ چند صدیوں کے بعد ان کی حالت اس درجہ مختلف ہوگئی کہ ان میں اور ان کے قدیم ہم وطنوں میں کوئی بات بھی مشترک باقی نہیں رہی۔ وہ اب مہذب ہورہے تھے، یہ بدستور وحشی تھے، وہ تہذیب کے صناعی ہتھیاروں سے لڑتے تھے، وہ وحشت کی قدرتی ہمجیت اور درندگی سے، ان میں زراعت، صناعت اور ذہنی ترقی کی مختلف شاخیں ابھر رہی تھیں۔ وہ ان سب سے نا آشنا تھے۔ سرد علاقہ کی صحرائی زندگی اور وحشیانہ خصائل کی خشونت نے انہیں وقت کی شائستہ اقوام کے لیے ایک خوفناک ہستی بنا دیا تھا۔ قبل اسکے کہ تاریخی عہد کی صبح طلوع ہو، شمال مشرقی قبائل کی یہ مہاجرت شروع ہوچکی تھی اور اس کا سلسلہ تاریخی عہد میں بھی بدستور جاری رہا۔ آریا : انہی قبائل کا ایک ابتدائی گروہ وہ تھا جو آرین نسل کے نام سے پکارا گیا ہے، اس کا ایک حصہ وسط ایشیا سے یورپ کی طرف بڑھ گیا ایک نیچے اتر کر پنجاب میں آباد ہوگیا۔ ایک مغرب کی طرف بڑھا اور فارس اور میڈیا اور اناتولیا میں بس گیا۔ اسے اب انڈو یوروپین میں آریا کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ ہندوستان اور یورپ، دونوں کی آریائی اقوام کے مورث اعلی تھے۔ ان کا جو حصہ شمالی ہند میں بس گیا تھا، اس نے اپنا نسلی خطاب برابر یاد رکھا اور اپنے کو آریا ورتھ کہتا رہا۔ جو فارس اور میڈیا میں بسا اس نے اپنی ابتدائی قیام گاہ کو ایریانہ کے نام سے موسوم کیا۔ (جسے اوستا میں ایریانہ ویگو کہا گیا ہے) اور یہی ایریانہ ایران ہوگیا۔ جو قبائل اناتولیا تک پہنچ گئے تھے، وہ (غالبا) ہٹٹی (Hittite) کے نام سے پکارے گئے جنہیں تورات کی کتاب پیدائش میں حتی کہا گیا ہے اور مصر کے قدیم نوشتوں میں حنتتی پایا گیا۔ یورپ کے قبائل : جو قبائل یورپ میں پہنچے، وہ گوتھ، فرانک، الامان، ونڈال، ٹیوٹان، اور ہن کے نام سے مشہور ہوئے اور انہی کی ایک وسیع شاخ وہ تھی جو بحر اسود سے لے رک دریائے ڈینیوب کی بالائی وادی تک پھیل گئی اور سیتھین کے نام سے پکاری گئی، وسط ایشیا کے مشرقی قبائل بھی جو بکٹر یا (بلخ) پر تاخت و تاراج کرتے رہتے تھے، سیعھین ہی تسلیم کیے گئے ہیں اور خود ارانے اپنے کتبہ استخر میں انہیں اسی نام سے پکارا ہے۔ اقسام ثلاثہ : ان قبائل کی جو تین شاخیں شمالی ہند اناتولیا (ایشیائے کو چک) اور ایران میں بس گئی تھی انہیں ایسا ماحول ملا جو زراعت کے لیے موزوں تھا، اس لیے بہت جلد انہوں نے زراعتی زندگی اختیار کرلی اور پھر تہذیب و حضارت کی طرف بڑحنے لگیں لیکن جو شاخیں یورپ کی طرف بڑھیں انہیں ایسا ماحول میسر نہیں آیا، اس لیے صحرائی زندگی کی تمام خصوصیات ان میں بدستور باقی رہیں اور صدیوں تک متغیر نہ ہوئیں۔ اب گویا ان قبائل کی تین حالتیں ہوگئی تھیں۔ اولا : منگولیا کے اصلی باشندے جو یک قلم وحشی اور صحرائی تھے اور ان کی یہ حالت بغیر کسی تغیر کے برابر قائم رہی۔ ثانیا : بحر اسود کے شمالی ساحل اور شمالی یورپ کے قبائل جو گو اپنے مولد اصل سے الگ ہوگئے تھے لیکن ان کی وحشیانہ خصوصیات نہیں بدلی تھی۔ ثالثا : ہندوستان ایران اور اناتولیا کے قبائل جو بتدریج شہریت و حضارت میں ترقی کرنے لگے اور پھر آگے چل کر تین قدیم تہذیبوں کے بانی ہوئے۔ یاجوج و ماجوج کا اطلاق : تقریبا ٧٠٠ قبل مسیح سے لے کر پانچویں صدی مسیحی تک یاجوج و ماجوج یاگواگ اور مے گگ کا اطلاق پہلی دو قسموں پر ہوتا رہا۔ پہلی پر اس لیے کہ قومیت اور مقام کے لحاظ سے وہی یاجوج و ماجوج تھی۔ دوسری پر اس لیے کہ گو اپنے مولد و مقام سے الگ ہوچکی تھی لیکن اپنی وحشیانہ خصوصیات میں بالکل متغیر نہیں ہوئی تھی۔ تیسری قسم چونکہ یک قلم منقلب ہوچکی تھی اس لیے اب وہ یاجوج و ماجوج نہیں رہی تھی بلکہ خود یاجوج و ماجوج کی غارت گریوں کا نشانہ بن گئی تھی۔ البتہ جب پانچویں صدی مسیحی میں یورپ کے قبائل کی حالت بھی منقلب ہونا شروع ہوگئی اور مسیحت اختیار کر کے تہذیب وحضارت کی طرف بڑھنے لگے تو قوموں کے حافظہ سے ان کا نام بھی اتر گیا اور یاجوج و ماجوج کا اطلاق صرف اسی خطہ میں سمٹ آیا جہاں سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔ یعنی صرف منگولیا کے صحرا نورد قبائل ہی یاجوج و ماجوج سمجھے جانے لگے۔ چنانچہ قرآن نے سورۃ انبیاء میں ان کے جس خروج کی خبر دی ہے وہ منگولیا کے تاتاریوں کا آخری خروج تھا۔ یورپ کی تمام موجودہ قومیں (لاطینی نسل مستثنی کردینے کے بعد) براہ راست اہی قبائل کی نسل سے ہیں۔ جیسا کہ معلوم و مسلم ہے۔ صحرا نوری اور توطن کا اختلاف معیشت : اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نسل انسانی نے اکثر حالتوں میں پہلے صحرا نوردی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی ہے۔ پھر توطن اور اقامت گزینی اختیار کی ہے اور اس اختلاف حالت نے ہمیشہ دو طرح کے انسانی گروہوں سے دنیا کو آباد رکھا ہے۔ صحرا نورد قبائل کے گروہ اور اقامت گزین قبائل کے گروہ۔ معیشت کی یہ دونوں حالتیں اس درجہ مختلف تھیں کہ ایک ہی نسل کے دو قبیلوں میں سے ایک قبیلہ اگر صحرا نور در رہتا تھا اور دوسرا اقامت گزین ہوجاتا تھا تو چند صدیوں کے بعد نہ صرف ایک دوسرے سے اجنبی ہوجاتے تھے بلکہ بالکل متضاد قسم کی مخلوق بن جاتے تھے۔ صحرا نورد قبائل کو غذا کے لیے جانوروں کے دودھ اور شکار کے گوشت پر اعتماد کرنا پڑتا تھا۔ اقامت گزین قبائل کو اناج پر، وہ گھوڑوں کی برہنہ پیٹھ پر زندگی بسر کرتے۔ یہ کھیتوں میں اور مکانوں کی چار دیواری میں، ان کی زندگی کا ماحول صحرائیت تھی، ان کا ماحول شہریت، ان کو نشو نما کے لیے جنگ کی ضرورت تھی۔ ان کو امن کی، ان کا جسم روز بروز طاقتور اور محنت پسند ہوتا جاتا تھا۔ ان کا روز بروز کمزور اور راحت پسند، وہ روز بروز وحشت و خونخواری میں بڑھتے جاتے تھے، یہ روز بروز تہذیب و حضارت میں، تہذیب و حضارت کا لازمی نتیجہ تھا کہ جذبات و خصائل میں لطافت اور نرمی پیدا ہو۔ صحرائیت و خانہ بدوشی کا لازمی نتیجہ تھا کہ جذبات تند اور خصائل میں وحشت و خشونت ہو۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ جوں جوں اقامت گزیں قبائل شائستہ ہوتے جاتے، صحرا نورد قبائل کی ہستی ان کے لیے ہولناک اور ناقابل مزاحمت ہوتی جاتی، جب کبھی دونوں میں مقابلہ ہوتا، تو شہری قبائل دیکھتے کے صحرا نورد قبائل عفریتوں کی طرح خوفناک اور درندوں کی طرح خونخوار ہیں ِ، اور صحرا نورد قبائل معلوم کرلیتے کہ ان کی غارت گریوں کے لیے شہری آبادیوں سے زیادہ کوئی سہل شکار نہیں۔ البتہ صحرا نورد قبائل متفرق تھے اور اقامت گزینی کے طریقوں سے نا آشنا، اقامت گزین قبائل باہم مربوط تھے، اور معیشت کے منظم طریقوں سے آشنا، اس لیے قدرتی طور پر صحرا نوردوں کے حملے ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ وہ خوفناک درندوں کی طرح آبادیوں پر گرتے اور قتل و غارت کر کے نکل جاتے۔ لیکن جم کر ٹک نہیں سکتے تھے اور نہ علاقے فتح کر کے اپنے قبضے میں رکھ سکتے تھے۔ مگر جب کبھی صدیوں کے بعد ان میں کوئی حکمراں قائد پیدا ہوجاتا اور وہ بہت سے قبیلوں کو متحد کر کے ایک فوج کی نوعیت دے دیتا تو پھر قتل و غارت گری کی ایک ایسی منظم طاقت پیدا ہوجاتی جو صرف وقتی حملوں ہی پر قانع نہیں رہتی بلکہ مملکتوں اور قوموں پر قابض ہوجاتی اور شہری آبادیوں کی بڑی قوتیں بھی اس کی راہ نہیں روک سکتیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ صحرا نورد اور غیر متمدن اقوام کے مقابلہ میں شہری اور متمدن اقوام کا ہمیشہ ایسا ہی حال رہا۔ یہاں تک کہ علم و صناعت نے ایسے ہتھیار اور جنگی وسائل پیدا کردیے جن کے مقابلے سے غیر متمدن اقوام عاجز آگئیں۔ یاجوج و ماجوج صحرا نوردی کی خوفناک قوت تھی : چنانچہ ان شمال مشرقی قبائل کی پوری تاریخ اسی حقیقت کا افسانہ ہے، ان کی جن شاخوں نے اقامت گزینی کی زندگی اختیار کرلی تھی وہ بالکل ایک دوسری قوم بن گئیں اور جنہیں ایسے حالات میسر نہیں آئے وہ بدستور صحر نوردر ہیں۔ اقامت گزین قبائل کے لیے صحرا نورد قبائل صرف اجنبی ہی نہیں ہوگئے تھے بلکہ خوفناک بھی ہوگئے تھے کیونکہ ان کی روز افزوں شہریت ان کی صحرائی وھشت ناکیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ یہ جب کبھی موقع پاتے قرب و جواب کی آٓبادیاں غارت کرتے اور اگر بقائل کا کوئی قائد نکل آتا تو ان کی غارت گریاں دو دور تک بھی پہنچ جاتیں۔ صدیوں تک ان کی حالت ایسی ہی رہی۔ پھر جب چوتھی صدی مسیحی سے ان کے اندر ایسے قائد پیدا ہونے لگے جنہوں نے نظم و اطاعت کا راز پالیا تھا تو اچانک ان کی طاقت کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پانچویں صدی میں اٹیلا (Attila) نے جوہن قبیلہ کا قائد تھا ایک عظیم فاتح کی حیثیت اختیار کرلی اور رومن امپائر کی دونوں مشرقی و مغربی مملکتوں کو لرزہ براندام کردیا۔ پھر یہی قبائل ہیں جو بالآخر اس طرح تمام یورپ پر چھا گئے کہ نہ صرف رومن امپائر کو بلکہ روی تمدن کو ہمیشہ کے لیے پامال کردیا۔ چند صدیوں کے بعد تاریخ یہ منظر پھر دہراتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خود منگولیا میں ایک نیا منگولی قائد چنگیز خان پیدا ہوگیا ہے۔ وہ تمام تاتاری قبائل کو اپنے ماتحت ایک قوم بنا دیتا ہے اور پھر فتح و تسخیر کا ایک ایسا ہولناک سیلاب امنڈتا ہے جسے اسلامی ممالک کی کوئی متمدن قوت بھی نہ روک سکی۔ وسط ایشیا سے لے کر عراق تک جو ملک اس کے سامنے آیا، خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔ منگولی نسل کے انشعاب کے مختلف دور : بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج و ماجوج سے مقصود یہی منگولین قوم اور اس کی تمام صحرا نورد اور وحشی شاخیں ہیں۔ اب ہم چاہتے ہیں ان کے خروج وظہور کے مختلف دور تاریخی ترتیب سے منضبط کرلیں۔ اسی ضمن میں یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ سائرس کے زمانہ میں یہ قوم کہاں تھی، اور کیوں اسے سد تعمیر کرنے کی ضرور پیش آئی؟ اس بارے میں تاریخ کی شہادتوں کا خلاصہ حسب ذیل ہے : (١) پہال دور تاریخی عہد سے پہلے کا ہے جب شمال مشرق سے ان قبائل کے ابتدائی گروہ نکلے اور وسط ایشیا میں آباد ہوئے پھر جنوب اور مغرب میں پھیلنے لگے، اس خروج و انشعاب کی رفتار بہت سست رہی ہوگی اور بے شمار منزلیں پیش آئی ہوں گی۔ (٢) دوسرا دور صبح تاریخ کا ہے لیکن روشنی ابھی دھندلی ہے، اب اقامت گزینی اور صحرا نوردی کی دو مختلف اور متوازی معیشتوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ شمالی ہند، ایران اور اناتولیا کے قبائل اقامت گزینی کی زندگی میں بدل چکے ہیں مگر وسط ایشیا سے لے کر بحر اسود تک صحرا نورد قبائل کے جتھے پھیلتے جاتے ہیں اور مشرق سے نئے نئے قبیلوں کے اقدام کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ یہ زمانہ تقریبا ٣٠٠٠ قبل سمیح سے ١٥٠٠ قبل مسیح تک کا تصور کرنا چاہیے۔ (٣) تیسرا دور تاریخ کی روشنی میں پوری طرح نمایاں ہے۔ یہ تقریبا ایک ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اب بحر خزرا اور بحر اسود کا علاقہ ایک وحشی اور خونخوار قوم کا مرکز بن چکا ہے اور وہ مختلف ناموں میں اور مختلف جہتوں سے نمایاں ہوتی رہتی ہے۔ پھر اچانک تاریخ کے افق پر سیتھین قوم کا نام ابھرتا ہے یہ وسط ایشیا سے لے کر بحر اسود کے شمالی کناروں تک آباد ہے اور اطراف و جوانب میں برابر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ یہ زمانہ اشوری تمدن کے ظہور اور بابل اور نینوی کے عروج کا تھا۔ اور ہیروڈوٹس کی زبانی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آشورین کی شمالی سرحد پر سیتھین قبائل کی غارت گریاں برابر جاری ہیں َ یہ شمالی سرحد بحر خزر کے جنوبی ساحل اور آرمینیا کے سلسلہ کوہ تک پہنچی ہوئی تھی وار وہ کا کیشیا کے دورے سے اتر کر آشوری آبادیوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ پھر ٦٣٠ قبل مسیح میں اچانک ان کا ایک عظیم گروہ اسی راہ سے اترتا ہے اور ایران کا تمام مغربی حصہ پامال کردیتا ہے۔ یونانی مورخ کہتے ہیں کہ آشوری مملکت کی تباہی کا ایک بڑا باعث غارت گری تھی۔ (٤) چوتھا دور ٥٥٠ قبل مسیح کا قرار دینا چاہیے جب سائرس کا ظہور اور فارس اور میڈیا کی متحدہ شہنشاہی کی بنیاد پڑی۔ اس عہد میں مغربی ایشیا کا تمام علاقہ سیتھین حملوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور صدیوں تک ان کے حملوں کی کوئی صدا تاریخ کی سماعت تک نہیں پہنچتی، اس عہد میں صرف دو موقعوں پر ان کا ذکر آتا ہے۔ پہلا سائرس کے زمانہ میں جب وہ فتح بابل سے پہلے سیتھین قبائل کے سرحدی حملوں کا تدارک کرتا ہے۔ دوسرا دارا کے زمانے میں جب وہ باسفورس عبور کر کے دریائے ڈینیوب کی وادیوں میں پہنچ جاتا ہے اور ان قبائل کو دور تک بھگا دیتا ہے۔ دارا کے حملہ کے بعد ان کا دباؤ شمالی یورپ کی طرف بڑھنے لگا۔ (٥) پانچواں دور تیسری صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس عہد میں منگولین قبائل کا ایک نیا سیلاب اٹھتا ہے اور پہلے چین کی آبادیوں پر ٹوٹتا ہے پھر آہستہ آہستہ وسط ایشیا کی قدیم شاہراہ اخٹیار کرتا ہے، چین کی تاریخ میں انہیں ہیونگ نہ (Hiung nu) کے نام سے پکارا گیا ہے، اور یہی نام آگے چل کر ہن ہوگیا ہے۔ یہی زمانہ ہے جب شہنشاہ چینن شین ہوانگ ٹی نے ان حملوں کے روکنے کے لیے وہ عظیم الشان دیوار تعمیر جو دیوار چین کے نام سے مشہور ہے اور پندرہ سو میل تک چلی گئی ہے۔ اس کی تعمیر ٢١٤ قبل مسیح میں شروع ہوئی اور بیان کیا جاتا ہے کہ دس برس میں ختم ہوئی۔ اس نے شمال اور مغرب کی طرف سے منگولین قبائل کے حملوں کی تمام راہیں مسدود کردی تھیں۔ اس لیے ان کا رخ پھر وسط ایشیا کی طرف مڑ گیا۔ (٦) چھٹا دور تیسری صدی مسیحی کا ہے جب ان قبائل نے یورپ میں ایک نئی کروٹ لی اور بالآخر رومی مملکت اور رومی تمدن کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔ (٧) ساتواں اور آخری دور بارہویں صدی مسیحی اور چھٹی صدی ہجری کا ہے جب منگولیا میں تازہ دم قبائل کی ایک بڑی تعداد پھر تیار ہوگئی اور چنگیز خان نے انہیں متحد کر کے ایک نئی فتح مند طاقت پیدا کردی۔ ذوالقرنین کے عہد میں یاجوج ماجوج : مندرجہ صدر خلاصہ سے یہ بات بھی واضھ ہوگئی کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں مغربی ایشیا کا تمام علاقہ سیتھین قبائل کے حملوں سے غارت ہورہا تھا اور جس ہاتھ نے اچانک ظاہر ہو کر ان کے حملے روک دیے اور پھر ہمیشہ کے لیے مغربی ایشیا یک قلم محفوظ ہوگیا اور سائرس کا ہاتھ تھا۔ پس یقینا منگولین نسل کے یہی سیتھین قبائل تھے جو یاجوج و ماجوج کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ذوالقرنین یعنی سائرس نے انہی کی راہ روکنے کے لیے سد تعمیر کی۔ جس طرح تین صدیوں کے بعد چینی مجبور ہوئے کہ انہیں روکنے کے لیے ایک دیوار تعمیر کریں۔ سیتھین قبائل اور درہ کا کیشیا : اب غور کرو سیتھین قبائل کے یہ حملے کس جانب سے ہوتے تھے؟ ہیروڈوٹس وغیرہ یونانی مورخ بتلاتے ہیں کہ صرف ایک راہ سے، یعنی کا کیشیا کے درہ سے، یہی مقام صدیوں تک دونوں علاقوں میں درمیان کا پھاٹک رہا ہے۔ اب اگر سائرس ان حملوں سے محفوظ ہونا چاہتا تھا تو کیا اس کے لیے ضروری نہ تھا کہ یہ پھاٹک بند کردے؟ قدرتی طور پر ضروری تھا اور اس لیے اس نے سد تعمیر کر کے یہ راہ مسدود کردی۔ چونکہ ان حملوں کی صرف یہی ایک راہ تھی اور وہ اس طرح بند کردی گئی، اس لیے یاجوجی حملوں کا بھی یک قلم خاتمہ ہوگیا۔ حزقیل کی پیشین گوئی کا مصداق :