سورة الإسراء - آیت 51

أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔“ (٥١) ”

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہاں بھی آیت (٥١) میں یہی استدلال ہے۔ پہلی زندگی سے مراد نوع کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور فرد کی بھی۔ ہر فرد اپنی ہستی میں غور کرسکتا ہے۔ اس کا وجود نہ تھا مگر ظہور میں آگیا اور کس طرح ظہور میں آیا؟ محض نطفہ کے ایک خرد بینی کیڑے سے جو عقلہ کی طرح ہوتا ہے، یعنی جونک کی طرح، پھر اگر کیڑے کے ایک ذرہ سے اس کا وجود بن سکتا تھا تو کیا اس کے پورے وجود کے ذرات سے دوبارہ وجود نہیں بن سکتا؟ (مالکم کیف تحکمون)