لَّا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَّخْذُولًا
” اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا نا ورنہ مذمت کیا ہوا اور بےیارومددگار ہو کر رہے گا۔“ (٢٢)
آیت (٢٢) سے سلسلہ بیان اوامر و نواہی کی طرف متوجہ ہوا ہے اور واضح کیا ہے کہ طالب آخرت گروہ کے اعمال کیسے ہونے چاہیئں۔ طالبین آخرت کی کامیابی اس سے مشروط کردی تھی کہ (وسعی لھا سعیھا) اب اس کی تشریح کی ہے کہ سعادت اخروی کے لیے سعی اس طرح کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے توحید فی العبادت کی تلقین کی کہ اللہ کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو۔ کیونکہ نفس توحید کا اعتقاد تو تمام پیروان مذاہب میں موجود تھا۔ لیکن توحید فی العبادت کی حقیقت مفقود ہوگئی تھی۔ پھر والدین کے حقوق پر توجہ دلائی، کیونکہ انسان کے لیے والدین کی ربوبیت الہی کا پر تو ہے اور اس لیے عبودیت الہی کے بعد جو عمل اس کے لیے مقدم ہوسکتا ہے وہ یہی ہے کہ والدین کے حقوق پرورش سے غافل نہ ہو۔