وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ
اور جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔“ (٢٠) ”
آیت (٢٠) اور اس کے بعد کی آیتوں میں دلائل سے نتیجہ نکلا ہے۔ ایسا نتیجہ جو خود بخود ابھر رہا اور ہر نگاہ کے کے سامنے آرہا تھا۔ یعنی جس پروردگار نے اپنی پروردگاریوں کا یہ تمام کارخانہ پیدا کردیا ہے کیا کوئی دوسری ہستی اس کے برابر ہوسکتی ہے ؟ کیا وہ ہستی جو یہ سب کچھ پیدا کر رہی ہے اور جو پیدا نہیں کرسکتی دونوں برابر ہوسکتی ہے ؟ اگر نہیں ہوسکتیں تو اس سے بڑھ کر عقل کی کوری اور روح کی موت کیا ہوسکتی ہے۔ کہ تم دوسری ہستیوں کو بھی پروردگار عالم کے ساتھ معبودیت میں شریک کر رہے ہو؟ آیت (١٨) میں فرمایا ان چند اشیاء کی پیدائش ہی پر موقوف نہیں، اس کی نعت میں تو اتنی ہیں کہ اگر گننا چاہو تو تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ گن سکو۔ تمہاری زندگی کا ہر سانس اس کی کسی نہ کسی نعمت کا رہین منت ہے۔ کارخانہ ہستی کا ہر ذرہ کسی نہ کسی بخشش و کرم کی نشانی ہے۔ درختوں کا ہر پھول، دھوپ کی ہر کرن، ہوا کا ہر جھونکا، بارش کا ہر قطرہ، چاند کی ہر نمود، ستاروں کی ہر چمک، پرندوں کی ہر چہچہاہٹ اس کی ربوبیت کی ایک پروردگار اور اس کی رحمت کی ایک چارہ سازی ہے، تم اگر درختوں کے سپز پتے، پھولوں کے رنگین ورق اور سورج کی سنہری کرنیں گن سکتے ہو تو اس کی نعمتیں بھی گن لو۔ تم درختوں کے ہر پتے سے پوچھو، بارش کے ہر قطرہ سے سوال کرو، سورج کی ہر کرن کا منہ دیکھو، تمہیں یہی جواب ملے گا کہ (ان اللہ لغفور رحیم) جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑی ہی رحمت والا ہے۔ برائی اور معصیت کرنے کو ہر جگہ قرآن نے (ظلموا انفسھم) اور (اسرفوا علی انفسھم) سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی انہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کی اور اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ یہاں بھی آیت (٢٨) میں ایسی ہی تعبیر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک کفر و بدعملی کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہ خود اپنے ہاتھوں اپنی جانوں کو نقصان و ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اس بات کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی آدمی کو ہم سنکھیا کھاتے دیکھتے ہیں تو بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑے ہو؟ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہو؟ قرآن کے نزدیک کفر ومعژیت بھی ایسی ہی چیز ہے۔ یہ دودھ پینے کی جگہ سنکھیا کھانا ہے اور جو کھاتا ہے وہ خود اپنی جان کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے اور خود اپنے اوپر زیادتی کرنے والا ہوتا ہے۔