سورة البقرة - آیت 177

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

صرف نیکی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے ہی میں نہیں۔ حقیقتاً نیکی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ، قیامت کے دن، فرشتوں، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والے۔ جو لوگ مال کے محبوب ہونے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دیں۔ غلاموں کو آزاد کریں نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کریں، اپنے وعدے پورے کریں۔ تنگدستی اور لڑائی کے وقت صبر کریں۔ یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

دین حق کی اس اصل عطیم کا اعلان کہ سعادت و نجات کی راہ یہ نہیں ہے کہ عبادت کی کوئی خاص شکل یا کھانے پینے کی کوئی خاص پابندی یا اسی طرح کی کوئی دوسری بات اختیار کرلی جائے۔ بلکہ وہ سچی خدا پرستی اور نیک عملی کی زندگی سے حاصل ہوتی ہے اور اصلی شے دل کی پاکی اور عمل کی نیکی ہے۔ شریعت کے ظاہری احکام و رسوم بھی اسی لیے ہیں تاکہ یہ مقصود حاصل ہو۔ نزول قرآن کے وقت دنیا کی عالمگیر مذہبی گمراہی یہ تھی کہ لوگ سمجھتے تھے دین سے مقصود محض شریعت کے ظواہر و رسوم ہیں۔ اور انہی کے کرنے نہ کرنے پر انسان کی نجات و سعادت موقوف ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے اصل دین خدا پرستی اور نیک عملی ہے اور شریعت کے ظاہر رسوم و اعمال بھی اسی لیے ہیں کہ یہ مقصود حاصل ہو۔ پس جہاں تک دین کا تعلق ہے ساری طلب مقاصد کی وہنی چاہیے نہ کہ وسائل کی۔