سورة الرعد - آیت 41

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہم زمین کو تمام اطراف سے کم کررہے ہیں اور اللہ فیصلہ فرماتا ہے، اس کے فیصلے پر کوئی نظر ثانی کرنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والاہے۔“ (٤١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٤١) میں خبر دی گئی ہے کہ وہ سریع الحساب ہے اس لیے ظہور نتائج کا وقت دور نہیں۔ نیز یہ کہ دعوت حق کی فتح مندی اس طرح ظہور میں آئے گی کہ بتدریج مکہ کے اطراف و جوانب قریش مکہ کے تسلط سے کٹتے جائیں گے اور بالآخر مکہ بھی فتح ہوجائے گا۔ آخری آیت میں واضح کردیا کہ حق و باطل کی موجودہ آویزش کا نقطہ نزاع کیا ہے ؟ فرمایا تمہارا دعوی ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہو، منکر کہتے ہیں نہیں، تم بھیجے ہوئے ہیں، اب قانون قضاء بالحق کے مطابق فیصلہ اللہ کے ہاتھ اور اس کی شہادت بس کرتی ہے۔ اللہ کی شہادت سے مقصود بھی قضاء بالحق ہے اور بقائے انفع کے قانون کا نفاذ ہے جو ظاہر ہو کر بتلا دیتا ہے کہ حق کس کے ساتھ تھا اور باطل کا کون پرستار تھا۔ مزید تشریح کے لیے تفسیر سورۃ فاتحہ کا مطالعہ کرو۔