اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
” اللہ وہ ہے جس نے آسما نوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جنہیں تم دیکھتے ہو، پھر وہ عرش پر بلند ہوا اور اس نے چاند اور سورج کو مسخر کیا۔ ہر ایک مقرر وقت کے لیے چل رہا ہے، وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔“ (٢)
آیت (٢) میں عالم سماویہ کا ذکر کیا تھا۔ آیت (٣) میں فرمایا زمین کو دیکھو، وہ ایک گیند کی طرح مدور اور گول ہے لیکن اس کی سطح کا ہر حصہ ایسا واقعہ ہوا ہے کہ گولائی محسوس ہی نہیں ہوتی، ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ایک مسطح فرش بچھا ہوا ہو، پھر اس میں پہاڑ پیدا کردریے گئے جن کی چوٹیوں پر برف جمتی اور پگھلتی رہتی ہے، اور اس طرح انہ نہروں کی روانی کا سامان ہوتا رہتا ہے جو میدانی زمینوں سے گزرتی ہیں اور انہیں سیراب کرتی رہتی ہیں۔ پھر زمین میں روئیدگی کیسی عجیب و غریب قوت پید اکردی کہ اس کی تمام طرح طرح کی خوش ذائقہ غذاؤں کا خوان نعمت بن گئی ہے؟ ہر طرح کے پھلوں کے درخت ہیں، ہر طرح کے دانوں کی فصلیں ہیں، سب میں دو دو قسموں اور جوڑوں کا قانون کام کر رہا ہے۔ اس اعتبار سے بھی کہ نباتات کی کوئی قسم نہیں جس میں حیوانات کی طرح نر اور مادہ کی جنسی تقسیم نہ ہو اور اس اعتبار سے بھی کہ ہر درخت کے پھل دو قسموں کے ضرور ہوتے ہیں۔ مثلا کھٹے اور میٹھے۔ خوش ذائقہ اور بد ذائقہ، اچھی قسم کے اور گری ہوئی قسم کے، پھر اس کی حکمت فرمائی کا یہ کرشمہ دیکھو کہ رات دن کا دائمی انقلاب طاری ہوتا رہتا ہے جو نباتات کی روئیدگی اور پختگی کے لیے ضروری تھا۔ جب دن کی تپش انہیں خوب اچھی طرح گرم کردیتی ہے تو رات آتی ہے اور زمین کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس کی چادر کے تلے وہ خنکی و برودت کی مطلوبہ مقدار حاصل کرلیتے ہیں۔ پھر ربوبیت الہی کی یہ کارر فرمائی دیکھو کہ زمین کی سطح ایک ہے مگر اس کے مختلف قطعات یکساں نہیں، سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں لیکن اپنی روئیدگی اور پیداوار کی مختلف خدمتیں انجام دے رہے ہیں۔ ایک قطعہ میں باغ ہیں ایک میں کھیت ہیں، ایک میں نخلستان ہیں، پھر اگرچہ زمین ایک ہے اور ایک ہی پانی سے ہر قطعہ سیراب ہوتا ہے لیکن ہر درخت کا پھل یکساں نہیں، کسی کا مزہ کچھ ہوتا ہے کسی کا کچھ۔ کائنات ہستی کے ان تمام کارخانوں کا اس نگرانی اور دقیقہ سنجی کے ساتھ نافع و کار آمد ہونا اور مخلوقات کی ضروریات کا اس عجیب و غریب کارر فرمائی کے ساتھ انتظام پانا کیا اس حقیقت کا اعلان نہیں ہے کہ ایک پرورش کنندہ اور مدبر ہستی موجود ہے اور یہاں جو کچھ ہورہا ہے کسی مقصد اور منتہی کے لیے ہورہا ہے ؟