المر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ ۗ وَالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
” ا آآرٰ۔ کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (١)
یہ سورت بھی مکی ہے اور خطاب مشرکین مکہ سے ہے۔ تمام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی دین حق کے بنیادی عقائد کا بیانن ہے، یعنی توحید، رسسالت، وحی اور جزائے عمل لیکن خصوصیت کے ساتھ جس بات پر زور دیا گیا ہے اور جو سورت کی تمام موعظت و تدبیر کے لیے مرکز بیان و خطاب ہے وہ حق اور باطل کی حقیقت اور ان کی باہمی آویز کا قانون ہے۔ چنانچہ سورت کی ابتدا بھی اسی اعلان سے ہوئی ہے کہ (والذی انزل الیک من ربک الحق) اور خاتمہ بھی اسی پر ہوا ہے کہ (فانما علیک وعلینا الحساب) حق و باطل کے امتیاز کا یہی عالمگیر اور فیصلہ کن قانون ہے جو دعوت قرآنی کی حقانیت اور عدم حقانیت کا فیصلہ کردے گا۔ اگر پیغمبر اسلام کا اعلان رسالت حق ہے تو حق کا خاصہ یہی ہے کہ باقی رہے اور فتح مند ہو، اگر باطل ہے تو بلاشہ باطل کے لیے مٹ جانا اور نامراد ہونا ہے، یہی اللہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی فیصلہ کن شہادت نہیں ہوسکتی اور اب اس شہادت کے ظہور کا انتظار کرنا چاہیے۔ سورت کی ابتدا اس اعلان سے ہوئی ہے کہ قرآن فکر انسانی کی بناوٹ نہیں ہے اللہ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔ اور امر حق ہے لیکن مخاطبین دعوت میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اسے نہیں مانتے، پس ضروری ہے کہ ان کے مقابلہ میں اس کی حقانیت آشکارا ہوجائے۔ پھر اللہ کی ہستی اور آخرت کی زندگی پر برہان حکمت و ربوبیت کا استدلال کیا ہے۔ اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کسی ایسی ہستی کی موجودگی کی شہادت دے رہی ہے جس نے جو کچھ بنایا ہے مصلحتوں اور حکمتوں کے ساتھ بنایا ہے اور یہاں کا ذرہ ذرہ اسی کی تدبیر و انتظام سے چل رہا ہے۔ پھر فرمایا ان نشانیوں کا تفکر دلوں میں یقین پیدا کردیتا ہے کہ انسانی زندگی صرف اتنے ہی کے لیے نہیں ہوسکتی جتنی حیات دنیوی میں نظر آرہی ہے۔ ضروری ہے کہ کوئی دوسرا مرحلہ بھی پیش آنے والا ہے ہو اور وہ ایسا ہو کہ مخلوق کو خالق کے حضور پیش کردے۔ اس آیت میں قدرت و حکمت الہی کے تین مرتبے بیان کیے ہیں : سب سے پہلے یہ کہ اجرام سماویہ کو پیدا کیا اور فضا میں پھیلا دیا، وہ بلند ہیں لیکن کوئی سہارا نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو، محض جذب و انجذاب کا قانون ہے جس کے توازن نے انہیں اپنی اپنی جگہ معلق و قائم رکھا ہے۔ یہ ان کے پیدائش تھی لیکن اب ان کے قیام و اجرا کے لیے ضروری تھا کہ احکام و قوانین ہوں اور نافذ ہوجائیں پس اس تمام کائنات ہستی پر اللہ کی فرمانروائی نافذ ہوگئی یعنی اس کا تخت حکومت بچھ گیا۔ اس کے احکام کے آگے سب جھک گئے۔ یہ احکام و قوانین کس طرح نافذ ہوئے؟ اس طرح کہ سورج اور چاند کو دیکھو، احکام الہی نے کس طرح انہیں مسخر کر رکھا ہے ؟ بال برابر ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، ان کی سیر و گردش کے لیے جو میعادیں ٹھہرا دی گئی ہیں ٹھیک ٹھیک اس کے مطابق چل رہے ہین۔ پھر اس کے بعد اس معاملہ کی وضاحت کردی کہ یدبر الامر اور یہاں یہی بات بنائے استدلال ہے۔ یعنی یہ سب کچھ جو ہوا اور ہو رہا ہے اس حقیقت کی شہادت ہے کہ یہاں تدبیر امور کرنے والا ایک ہاتھ موجود ہے ورنہ ممکن نہ تھا کہ یہ سب کچھ ظہور میں آجاتا اور قائم و جاری رہتا اور اگر تدبیر امور کی قوت کام کر رہی ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اعمال انسانی کے لیے اس نے کوئی انتظام نہ کیا ہو اور انسانی زندگی ایک فعل عبث کی طرح رائیگاں جائے؟