قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
” فرما دیں یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتاہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، میں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے، اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔“ (١٠٨)
دعوت وحی علم و بصیرت : آیت (١٠٨) میں جو بات کہی گئی ہے کہ قرآن کے مہمات معارف میں سے ہے۔ فرمایا تم اعلان کردو میری راہ یہ ہے کہ علم و یقین کی بنا پر خدا پرستی کی دعوت دیتا ہوں اور کہتا ہوں میری راہ شرک کرنے والوں کی راہ نہیں ہے، برخلاف اس کے تمہارا حال یہ ہے کہ شرک کے داعی ہو اور بنیاد دعوت علم و یقین نہیں ہے، جہل و ظن ہے، اب فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور ایسے ہی فیسلے پچھلی قوموں کے لیے بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں بصیرۃ کا لفظ فرمایا، بصیرۃ کے معنی علم، معرفت اور یقین کے ہیں اور اسی لیے دلیل و حجت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ پس قرآن کہتا ہے جس راہ کی طرف بلاتا ہوں اس کے لیے میرے سامنے علم و یقین ہے، پھر کیا تمہارے پاس بھی علم و یقین میں سے کچھ ہے؟ اگر نہیں ہے تو اتباع یقین وعرفان کا کرنا چاہیے یا جہل و کوری اور شک و گمان کا؟ اس مقام کی تشریح پچھلی سورتوں کی تشریحات میں بار بار گزر چکی ہے۔