سورة یوسف - آیت 33

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اس نے کہا اے میرے رب ! مجھے قید خانہ اس سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ دور کرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہو کر جاہلوں سے ہوجاؤں گا۔“ (٣٣) ”

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

عزیز کی بیوی کا دھمکی دینا کہ اگر کہا نہ مانو گے تو قید میں ڈالے جاؤ گے اور حضرت یوسف کا معصیت پر قید کو ترجیح دینا اور قید خانہ میں بھی تبلیغ حق سے غافل نہ ہونا۔ عزیز پر حضرت یوسف کی سچائی ظاہر ہوئی گھی اس لیے ان کے لیے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی لیکن اس کی بیوی کا عشق ایسا نہ تھا جو اس ناکامی سے سرد پڑجاتا، وہ اور زیادہ بڑھ گیا، اور جب دیکھا کہ طلب و الحاح سے کسی طرح کام نہیں بنتا تو سختی پر اتر آئی اور یوسف سے کہا یا تو میرا کہا مانو نہیں تو قیدی ہونے کی ذلت و رسوائی گوارا کرو۔ حضرت یوسف نے کہا قید خانہ مجھے پسند پے لیکن راستی سے منحرف ہونا پسند نہیں۔ تورات میں ہے کہ جب یوسف قید خانے میں ڈالا گیا تو قید خانے کا داروغہ اس پر مہربان ہوگیا اور تمام قیدیوں کا انتظام اس کے سپرد کردیا وہ قید خانہ کا بالکل مختار ہوگیا تھا اور خداوند نے وہاں بھی اسے اس کے تمام کاموں میں اقبال مند کیا۔ (پیدائش : ٢٢: ٣٩) قرآن کی آیت (٣٦) میں بھی اس کے اشارات موجود ہیں۔ اول تو دو قیدیوں کا خواب کی تعبیر پوچھا ہی اس کی دلیل ہے کہ انہیں غیر معمولی علم و فضیلت کا آدمی سمجھا جاتا تھا، پھر ان دونوں کا یہ کہنا کہ ہم دیکھتے ہیں تم بڑے نیک آدمی ہو، صاف طور پر واضح کردیتا ہے کہ قید خانے میں ان کا تقدس عام طور پر تسلیم کیا جاتا تھاْ تورات میں ہے کہ ان قیدیوں میں ایک بادشاہ کے ساتھیوں کا سردار تھا، دوسرا روٹی پکانے والوں کا، بادشاہ ان پر ناراض ہوا اور قید خانے میں بھیج دیاْ یوسف ہر روز قیدیوں کا معائنہ کیا کرتا تھا، ایک دن انہیں دیکھا کہ بہت ادا بیٹھے ہیں، سبب پوچھا تو انہوں نے کہا، ہم نے آج رات کو ایسی ایسی باتیں خواب میں دیکھی ہیں۔ (پیدائش : ١: ٤٠)