ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْقُرَىٰ نَقُصُّهُ عَلَيْكَ ۖ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ
” یہ ان بستیوں کی خبریں ہیں جو ہم آپ پر بیان کرتے ہیں ان میں سے کچھ قائم ہیں اور کچھ نیست و نابود ہوچکی ہیں۔“ (١٠٠) ”
سورت کی ابتدا میں قوم کو اتباع حق کی دعوت دی تھی اور سرکشی و فساد کے نتیجہ سے خبردار کیا تھا، نیز واضح کیا تھا کہ اس باب میں بنیادی امور کیا کیا ہیں۔ پھر آیت (٢٤) میں ان سب کا خلاصہ بیان کیا تھا کہ یہاں راہیں دو ہیں۔ ایک علم و بصیرت کی، ایک اندھے پن کی۔ اور ضروری ہے کہ دونوں کے چلنے والے اپنی حالت اور اپنے نتیجہ میں ایک ہی طرح کے نہ ہوں، پھر اس حقیقت پر دلیل پیش کی تھی، یہ گزشتہ ایام و وقائع کا بیان تھا جو حضرت نوح کے تذکرہ سے شروع ہوا اور حضرت موسیٰ کے تذکرہ پر ختم ہوگیا۔ اب آیت (١٠٠) سے لیکر آخر سورت تک ان نتیجوں اور عبرتوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس سلسلہ استدلال سے واضح ہوتی ہیں : (ا) ان قوموں کو جو کچھ پیش آیا تو اس لیے نہیں پیش آیا کہ اللہ نے ان پر زیادتی کی ہو، اس کا قانون جزا تو سرتا سر عدل و رحمت ہے، بلکہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کرنا چاہا اور نجات کی راہ سے منہ موڑ کر ہلاکت کی طرف چلنے لگے۔ (ب) اس باب میں اللہ کا قانون ایسا ہی ہے، اس کی رحمت نے مہلتوں پر مہلتیں دی ہیں اور روشنی کو تاریکی سے بالکل الگ کردیا ہے لیکن اگر ایک قوم روشنی سے یک قلم منہ موڑ لے تو پھر نتائج و عواقب کا ظہور کب نہیں رک سکتا۔ ان کے ظہور کی دردناکی وشدت کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ (ج) ہر اس انسان کے لیے جو آخرت کے خیال سے بے خوف نہ ہو اس بات میں حقیقت کی بڑی ہی نشانی ہے، کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جزائے عمل کا قانون یہاں نافذ ہے اور خدا کے رسولوں کا پیام جھوٹا نہیں۔ (د) اللہ کے یہاں ہر بات کے لیے ایک حساب ہے اور ہر معاملہ کے لیے ایک مقررہ میعاد، جب تک وہ وقت نہ آئے اس بات کا ظہور نہیں ہوسکتا، آخرت کا دن بھی اسی لیے پیچھے ڈال دیا گیا کہ اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہو۔ (ہ) اس دن جو شقی نکلیں گے ان کے لیے شقاوت ہوگی، جو سعید نکلیں گے ان کے لیے سعادت۔