سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
عنقریب نادان لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹا دیا ہے آپ فرمادیں کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھے راہ کی ہدایت دیتا ہے
دعوت ابراہیمی سے وحدت دین کے استشہاد کا بیان ختم ہوگیا۔ اب یہاں سے اس کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو پچھلے بیان کا قدرتی نتیجہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ اللام کو اقوام عالم کی امامت ملی تھی۔ انہوں نے مکہ میں عبادت گاہ کعبہ تعمیر کی اور امت مسلمہ کے ظہور کی الہامی دعا مانگی۔ مشیت الٰہی میں اس ظہور کے لیے ایک خاص وقت مقرر تھا۔ جب وہ وقت آگیا تو پیغمبر اسلام کا ظہور ہوا اور ان کی تعلیم و تزکیہ سے موعودہ امت پیدا ہوگئی۔ اس امت کو نیک ترین امت ہونے کا نصب العین عطا کیا گیا اور اقوام عالم کی تعلیم اس کے سپرد کی گئی۔ ضروری تھا کہ اس کی روحانی ہدایت کا ایک مرکز بھی ہوتا۔ یہ مرکز قدرتی طور پر عبادت گاہ کعبہ ہوسکتا تھا چنانچہ تحویل قبلہ نے اس کی مرکزیت کا اعلان کردیا۔ یہی حقیقت قلبہ کے تقرر میں پوشیدہ تھی۔ چنانچہ سیقول السفہاء سے یہی بیان شروع ہوتا ہے۔ پیرون دعوت قرآنی مخاطب ہیں اور انہیں بتلایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عمل حق نے جو بیج بویا تھا وہ بار آور ہوگیا ہے اور نیک ترین امت تم ہو۔