سورة یونس - آیت 105

وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور یہ کہ آپ اپنا چہرہ یکسو ہو کر اسی دین کی طرف سیدھا رکھیں اور مشرکوں سے ہرگز نہ ہونا۔“ (١٠٥)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١) کائنات کا چھ ایام میں پیدا ہونا : آیت (٣) میں فرمایا تمہارا پروردگار وہی ہے جس نے آسمان و زمین چھ ایام میں بنائے، یہی بات سورۃ اعراف کی آیت (٥٤) میں گزر چکی ہے اور اس کے نوٹ میں چھ ایام کا مطلب واضح کردیا گیا ہے، یہاں ہم چاہتے ہیں وہ تمام اشارا جمع دیں جو آسمان و زمین کی بتدائی پیدائش کے بارے میں جابجا کیے گئے ہیں : (١) آسمان و زمین کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی ہے جسے قرآن دخان کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے (ثم استوی الی السماء وھی دخان) دخان کے معنی دھوئیں کے ہیں، یا ایسی بھاپ کے جو اوپر چڑھی ہوئی ہو۔ (٢) یہ مادہ دخانیہ ابتدا میں ملا ہوا تھا، الگ الگ نہ تھا، پھر اس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے جد اکردئے گئے اور ان سے اجرام سماویہ کی پیدائش ظہور میں آئی : (ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما) (٣) یہ تمام کائنات بیک دفعہ ظہور میں نہیں آگئی، بلکہ تخلیق کے مختلف دور یکے بعد دیگرے طاری ہوئے، یہ دور چھ تھے جیسا کہ آیت زیر بحث میں ہے۔ (٤) سات ستاروں کی تکمیل دو دوروں میں ہوئی : (فقضاھن سبع سماوات فی یومین) (٥) زمین کی پیدائش دو دوروں میں ہوئی : قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ اندادا، ذلک رب العالمین) (٦) زمین کی سطح کی درستی اور پہاڑوں کی نمود اور قوت نشو ونما کی تکمیل بھی دو دوروں میں ہوئی، اور اس طرح یہ چار دور ہوئے : (وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام سواء للسائلین) (٧) تمام اجسام حیہ (یعنی نباتات و حیوانات) کی پیدائش پانی سے ہوئی (وجعلنا من الماء کل شی حی) (٨) انسان کے و جود پر بھی یکے بعد دیگرے مختلف حالتیں گزری ہیں : (وخلقکم اطوارا) ان تمام اشارات کا ماحصل بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں مادہ دخانی تھا، پھر اس میں انقسام ہوا، یعنی بہت سے ٹکڑے ہوگئے، پھر ہر ٹکڑے نے ایک کرہ کی شکل اختیار کرلی اور اسی کے ایک ٹکڑے سے زمین بنی، پھر زمین میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ دخانیت نے مائیت کی شکل اختیار کرلی، یعنی پانی پیدا ہوگیا، پھر خشکی کے قطعات درست ہوئے، پھر پہاڑوں کے سلسلے نمایاں ہوئے، پھر زندگی کا نمو شروع ہوا اور نباتات ظہور میں آگئیں۔ موجودہ زمانہ میں اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اور کرہ ارضی کی ابتدائی نشو ونما کے جو نظریے تسلیم کرلیے گئے ہیں یہ اشارات بظاہر ان کی تائید کرتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ان بنیادوں پر شرح و تفصیل کی بڑی بڑی عمارتیں اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہ ہوگا، یہ نظریے کتنے ہی مستند تسلیم کرلیے گئے ہوں، لیکن پھر نظریے ہیں، اور نظریات جزم و یقین کے ساتھ حقیقت کا فیصلہ نہیں کرسکتے، پھر اس سے کیا فائدہ کہ ان کی روشنی میں قرآن کے مجمل اور محتمل اشارات کی تفسیر کی جائے، فرض کرو آج ہم نے دخان اور دخان کے انقسام کا مطلب اسی روشنی میں آراستہ کردیا جو وقت کے نظریوں میں تسلیم کیا جاتا ہے لیکن کل کو کیا کریں گے اگر ان نظریوں کی جگہ دوسرے نظریے پیدا ہوگئے؟ صاف بات یہی ہے کہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کی حقیقت ہم اپنے علم و ادارک کے ذریعہ معلوم نہیں کرسکتے اور قرآن کا مقصود ان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح و تحقیقی نہیں ہے۔ خدا کی قدرت و حکمت کی طرف انسان کو توجہ دلانا ہے۔ یاد رہے کہ پیدائش عالم کے بارے میں مفسرین نے بہت سی روایات نقل کردی ہیں جن کی صحت ثابت نہیں اور جو تمام تر یہودیوں کے قصص و روایات سے ماخوذ ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث خلق اللہ التربۃ یوم السبت الخ۔ کی نسبت بھی محققین نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کا رفع مشکوک ہے اور غالبا کعب احبار سے مروی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے تفسیر میں اقوال جمع کردیے ہیں۔ (ب) منازل قمر : آیت (٥) میں فرمایا (وقدرہ منازل) یعنی چاند کے لیے یکے بعد دیگرے وارد ہونے کی منزلیں اندازہ کر کے ٹھہرا دیں۔ سورۃ یاسین کی آیت (٣٩) میں بھی ان منزلوں کی طرف اشارہ کیا ہے ( والقمر قدرنہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم) پس مختصرا ان منازل کا مطلب سمجھ لینا چاہیے۔ چاند زمین کے گرد گردش میں رہتا ہے اور اپنی گردش کے فلک کو ٢٧ دن ٧ گھنٹے اور ٤٣ منٹوں میں قطع کرلیتا ہے۔ اس دور کو علمائے ہئیت چاند کے نجومی دور سے یا نجومی مہینے سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیونکہ اس دور کے ختم ہونے پر چاند پھر اسی ستارہ کے قریب دکھائی دیتا ہے جس کے اپس سے اس کی گردش شروع ہوئی تھی۔ نیز اپنی گردش کی ہر رات میں کسی نہ کسی ستارہ یا ستاروں کے مجموعہ کے پاس ضرور پہنچ جاتا ہے اور وہ گویا اس کی گردش کے لیے ہر روز کی ایک منزل بن گیا ہے، وہ ہمیشہ ایک خاص منزل سے سفر شروع کرتا ہے، ہر روز کی مقررہ منزل میں نمایاں ہوتا ہے اور پھر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے زمین کا طواف شروع کیا تھا۔ اس طرح ٢٧ دن اور ٧ گھنٹے کی مدت نے ٢٨ منزلیں بنا دیں۔ جب ہم ٣٦٠ کے د رجوں کو (جو کامل دور کی مقررہ مقدار ہے) ٢٨ راتوں پر تقسیم کرتے ہیں تو معلوم ہوا ہے کہ چاند ہر روز تقریبا ١٣ درجہ مسافت اپنے فلک کی طے کرلیا کرتا ہے۔ تقریبا اس لیے کہا گیا کہ حساب میں کچھ دقیقے زیادہ ہوتے ہیں۔ انسان کی نگاہ کے لیے آسمان کی کوئی چیز بھی اس درجہ نمایاں اور پرکشش نہیں جس قدر سورج اور چاند کا طلوع و غروب ہے، کیونکہ انہی دو ستاروں نے بغیر کسی کاوش اور پیچیدگی کے اسے اوقات شماری کا راز بتلا دیا۔ اس نے دیکھا کہ سورج نکلتا ہے اور پھر گھٹتے گھٹتے چھپ جاتا ہے، پس اسے یہ اندازہ مقرر کرلینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ یہ ایک معین وقت ہے جس میں کبھی خلل واقع نہیں ہوسکتا اور اسے ایک دن ٹھہرا لینا چاہیے۔ پھر اس نے چاند کو دیکھا اور فورا معلوم کرلیا کہ اس کے طلوع و غروب کا بھی ایک خاص اندازہ مقرر ہے، وہ ایک خاص زمانہ تک دکھائی دیتا ہے پھر غائب ہوجاتا ہے اور پھر نمایاں ہو کر بڑھنے گھٹنے لگتا ہے۔ پس اوقات شماری کا دوسرا اندازہ بھی اسے معلوم ہوگیا اور اس نے چاند کے چھپنے اور نکلنے کی مدت کو مہینہ ٹھہرا دیا یہی مطالعہ جب آگے بڑھا تو معلوم ہوا ہر رات چاند آسمان کے کسی نہ کسی ستارہ کے پاس دکھائی دیتا ہے اور یہ نظارہ ایسا ہے جس میں کبھیئ فرق نہیں پڑتا۔ پس ان ستاروں سے اس کی روزانہ منزلیں بن گئیں اور ہر منزل کے لیے کسی خاص مناسبت سے ایک نام تجویز کردیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مطالعہ اور ضرورت کی یکساں حالت نے مختلف قوموں کو اس نتیجہ تک پہنچا دیا تھا۔ چنانچہ ہندوستان میں ان منازل کے لیے نچھتر کا لفظ اختیار کیا گیا اور ستائیس نچھتر قرار دیے گئے جو اسونی سے شروع ہوتے اور ریوتی پر ختم ہوتے ہیں۔ چینیوں نے بھی اٹھائیس منزلیں بنائی تھیں اور اسے سیو کہتے تھے۔ بابل واشور کے باشندوں نے شاید سب سے پہلے اس کا سراغ لگایا، اور مجوسیوں کی ایک مذہبی کتاب سے معلوم ہوتا ہے ایرانی بھی اس سے بے خبر نہ تھے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عرب جاہلیت نے مجاور قوموں سے یہ حساب معلوم کیا یا بطور خود اس نتجہ تک پہنچے تھے لیکن یہ قاعدہ ان میں رائج ضرور تھا اور اسے چاند کی منزلوں سے تعبیر کرتے تھے۔ حکمائے اسلام نے ان منزلوں کو بطلیموس کے نقشہ مندرجہ مجسطی سے تبطیق دی تھی اور علمائے یورپ نے زمانہ حال کے اسماء و علائم سے تطبیق دی ہے، ان منزلوں کے عربی نام حسب ذیل ہیں : الشرطان، البطین، الثریا، الدبران، الھقعہ، الھنعہ، الذراع، النثرہ، الطرف، الجبھہ، الزھرہ، الصرفہ، العواء، السماک الاعزل، الغفر، الزبانی، الاکلیل، القلب، الشولہ، النعائم، البلدہ، سعد الذابح، سعد بلع، سعد السعود، سعد الاخبیہ، الفرغ الاول، الفرغ الثانی، بطن الحوت۔ الفرغ الاول اور ثانی کے لیے فرغ الدلو المقدم اور فرغ الدلوا الموخر کے نام بھی ملتے ہیں، اور بطن الحوت کو الرشاء بھی کہتے ہیں۔ (ج) قرآن اور آخرت کی زندگی : ادیان عالم کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی اسی دنیا میں ختم نہیں ہوجاتی، اس کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور اس زندگی میں جیسے کچھ اعمال ہوں گے ویسے ہی نتائج دوسری زندگی میں پیش آئیں گے۔ قرآن میں بھی ایمان باللہ کا ایک بنیادی عقیدہ یہی مسئلہ ہے۔ البتہ اس نے جو تعبیر اختیار کی ہے وہ پیروان مذہب کے عام تصور سے مختلف ہے۔ وہ اس گوشہ کو کائنات ہستی کے عالمگیر قوانین خلقت سے الگ نہیں قرار دیتا بلکہ اسی کے ماتحت لاتا ہے۔ وہ کہتا ہے جس طرح دنیا ہر چیز کے خواص اور ہر حادثہ کے نتائج ہیں۔ ٹھیک اسی طرح انسانی اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں اور یہاں مادیات کی طرح معنویات کے قوانین بھی کام کر رہے ہیں۔ پس اچھے کام کا نتیجہ اچھائی ہوگا۔ برے عمل کا نتیجہ برائی (اس مقام کی تفصیل تفسیر سورۃ فاتحہ کے مبحث الدین میں گزر چکی ہے) یہ اچھے برے نتائج کس شکل میں پیش آئیں گے؟ قرآن کہتا ہے نیک عمل انسان اصحاب جنت ہیں ان کے لیے بہشتی زندگی کی خوشحالیاں ہوں گی اور لقائے الہی کی دائمی نعمت، بدعمل انسان اصحاب دوزخ ہیں، ان کے لیے دوزخ زندگی کی بدحالیاں ہوں گی اور نعمت اخروی سے محرومی، پھر دونوں طرح کی زندگیوں کے احوال و واردات ہیں جنہیں جابجا مختلف اسلوبوں میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں ہم اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ عالمہمارے ادارک کی سرحد سے باہر ہے، جس مقام کا ہم ادراک نہیں کرسکتے وہاں کے حالات کی نسبت حکم کیسے لگائیں؟ اگر لگائیں گے تو یہ ظن و گمان ہوگا اور ظن سے یقین پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن پھر اس پر ہم یقین کیوں کریں؟ اس لیے کہ ہم وجدانی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ سرحد محسوسات سے ماورا بھی ایک حقیقت موجود ہے اور اگر اس حقیقت سے انکار کردیں تو کائنات ہستی کے مسئلہ کا کوئی حل باقی نہیں رہتا اور خود ہماری عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر اللہ کی ہستی اور آخرت کی زندگی کا مبدء تسلیم نہیں کیا جاتا تو مسئلہ ہستی کے سارے سوالات لا ینحل ہوجاتے ہیں لیکن جونہی یہ نقطہ تسلیم کرلیا جاتا ہے معا سارے سوالات حل ہوجاتے ہیں اور مجہولیت کی تاریکی کی جگہ عرفان و بصیرت کی روشنی ہر طرف نمایاں ہوجاتی ہے۔ پس ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ نقطہ بناوٹی نہیں ہے حقیقی ہے۔ البتہ ایک بات بالکل واضح ہے، جب ہم عالم آخرت کے احوال و واردات سنتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی وہی شکل سامنے آجاتی ہے جو اس زندگی کی محسوسات کے لحاظ سے ہوسکتی ہے۔ لیکن خود قرآن و سنت کی تصریحات نے ہمیں بتلا دیا ہے کہ عالم آخرت کی باتوں کو اس دنیا کی باتوں کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے۔ مثلا جب ہم سنتے ہیں کہ جہنم میں آگ ہوگی اور بہشت سے مقصود باغ ہے تو ہمارے سامنے آگ کی وہی شکل آجاتی ہے جو ہمارے چولھوں میں جلا کرتی ہے اور باغ کا وہی نقشہ کھینچ جاتا ہے جو اپنے مکان کے صحنوں میں اگایا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ظٓہر ہے کہ عالم آخرت کی آگ اس دنیا کی آگ کی طرح نہیں ہوسکتی، اور نہ وہاں کے باغ و چمن ہمارے لگائے ہوئے باغوں کی طرح ہوں گے۔ سورۃ سجدہ کی آیت (١٧) میں ہے : (فلا تعلم نفس ما اخفی لھم ن قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون) کوئی جان نہیں جانتی کہ اس کی نیک عملیوں کی جزا میں نگاہ کا کیسا سرور پردہ غییب میں پوشیدہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ جنت کی راحت و سرور کی حقیقت کا ہم اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام نے جنت کی حقیقت یہ بتلائی ہے : (لاعین رات، ولا اذن سمعت، ولا خطر ببال احد بشر) (مسلم) نہ تو کسی آنکھ نے دیھکھی، نہ کسی کان نے سنی، نہ کسی فرد و بشر کے خیال میں گزری، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیا سے کوئی مشابہت نہیں رکھتیِ بجز اس کے کہ نام میں مشارکت ہے۔ (ابن کثیر) باقی رہی یہ بات کہ اگر عالم آخرت کے یہ معاملات دنیا کے معاملات کے مثل نہیں ہوں گے تو پھر ان کی حقیقت کیسی ہوگی؟ تو اس بارے میں ہماری عقلی کاوش کچھ معلوم نہیں کرسکتی۔ اصل یہ ہے کہ مادی زندگی کے احساسات و مفہومات کی زنجیروں میں ہم کچھ اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ ان سے آزاد ہو کر جمال حقیقت کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ پس اس کے سوا چارہ نہیں کہ جو کچھ بتلا دیا گیا ہے اس پر یقین کریں اور جو کچھ نہیں پاسکتے اس کی کاوش میں سرگرداں نہ ہوں، اگر سرگرداں ہوں گے تو حقیقت کا سراغ تو نہیں ملے گا، البتہ نئے نئے وہموں اور گمانوں میں مبتلا ہوجائیں گے : اے بروں از وہم و قال و قیل من۔۔۔ خاک بر فرق من و تمثیل من قرآن نے اسی لیے مطالب وحی کی دو قسمیں ٹھہرا دی ہیں۔ محکمات اور متشابہات، متشابہات کی نسبت فرما دیا ہے کہ اس کی حقیقت انسان نہیں پاسکتا۔ (لا یعلم تاویلہ الا اللہ) یہ اور اس طرح کے تمام معاملات جو عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی ماورائے محسوسات ہیں متشابہات کی قسم میں داخل ہیں۔ قرآن کہتا ہے جو علم میں کامل ہیں وہ ان کی کاوش میں نہیں پڑتے بلکہ کہتے ہیں کہ (امنا بہ کل من عندنا ربنا وما یذکر الا اولو الالباب) اس سلسلہ میں چند اور امور ہیں جو سمجھ لینے چاہیں۔