وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ
” اور انھیں نوح کی خبر پڑھ کر سنائیں جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر گراں گزرتا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ہے، پس تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء کے ساتھ مل کرمتفقہ فیصلہ کرلو پھر تمہارا معاملہ تم پر کسی طرح مبہم نہ رہے پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔“
آیت (٧١) میں انبیائے کرام کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل واضح کرتی ہے۔ یعنی وہ کامل یقین جو اپنے مرسل من اللہ اور صادق ہونے کا ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ حضرت نوح نے کہا اگر تم پر میری دعوت و تذکیر گراں گزرتی ہے اور مجھے اپنے بیان میں جھوٹا سمجھتے ہو تو جو کچھ بھی تم میرے خلاف کرسکتے ہو زیادہ سے زیادہ کوشش اور زیادہ سے زیادہ اہتمام کے ساتھ کر گزرو۔ تم سب جمع ہو، باہمدگر مشورے کرو، بہتر سے بہتر تدبریریں جو میرے مٹانے کے لیے سوچی جاسکتی ہیں، سوچ لو، معاملہ کا کوئی پہلو ایسا نہ رہ جائے جس کا پہلے سے بندوبست نہ کرلیا ہو۔ پھر پورے عزم و ہمت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہو اور اپنے جانتے بھر زرا بھی مہلت نہ دو۔ پھر سب کچھ کر کے دیکھ لو، تم مجھے اور میری دعوت کر مٹا سکتے ہو یا نہیں۔ کیا ممکن ہے کہ محض بناوٹ اور افترا پردازی کی زندگی سے ایسا یقین ابل سکے؟ کیا ممکن ہے کہ ایک فرد واحد پوری قوم کو اس طرح مقابلہ کی دعوت دے اور اس کے دل میں ذرا بھی کھٹک موجود ہو کہ اپنے بیان میں سچا نہیں؟ حضرت نوح کے ذکر کے بعد فرمایا ان کے بعد بہت سے رسول مختلف قوموں میں مبعوث ہوئے اور ایسا ہی معاملہ پیش آیا، پھر حضرت موسیٰ کے تذکرہ میں تفصیل کی، کیونکہ اہل عرب ان کے نام سے ناآشنا نہ تھے۔ حضرت نوح کے ذکر میں بھی اور حضرت موسیٰ کے حالات میں بھی صرف انہی پہلوؤں پر زور دیا ہے جو سورت کی موعظت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی : (ا) مفتری علی اللہ فلاح نہیں پاسکتا۔ (ب) نہ وہ جو صادق کا مقابلہ کرے، یعنی اللہ کے رسول کا مقابلہ کرے۔ (ج) ہدایت ایسی چیز نہیں ہے کہ زبردستی کسی کو پلا دو۔ جو ماننے والے نہیں وہ کبھی نہیں مانیں گے خواہ کتنی ہی نشانیاں دکھلاؤ، ایسا ہی ہمیشہ ہوا اور اب بھی ہوگی۔ حضرت موسیٰ نے کہا تم حق کی نشانیوں کو جادو کہتے ہو۔ حالانکہ جو جادوگرو ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جادو انسان کی بناوٹ اور شعبہ طرازی ہے اور ایک انسان اپنی بناوٹوں اور کرتبوں میں کتنا ہی ہوشیار ہو لیکن حق کے مقابلہ میں کبھی نہیں ٹک سکتا۔ الحق حقق سے ہے اور عربی میں حقق کا لغوی خاصہ اور قیام ہے۔ یعنی جو بات ثابت ہو، اٹل ہو، انمٹ ہو اسے حق کہتے ہیں۔ اور باطل ٹھیک ٹھیک اس کا نقیض ہے، یعنی ایسی بات جو مٹ جانے والی اور باقی نہ رہنے والی ہو۔ پس قرآن نے سچائی کو حق سے اور انکار کو باطل سے تعبیر کر کے یہ بات واضھ کردی ہے کہ سچائی کا خاصہ ثبوت و قیام ہے اور انکار و سرکشی کے لیے نہ ٹک سکنا اور مٹ جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جابجا اس طرح کی تعبیرات ہمیں ملتی ہیں کہ خدا حق کو حق کردے گا اور باطل کو باطل۔ یعنی حق ثابت و قائم ہر کر اپنی حقانیت آشکار کردے گا اور باطل نابود ہو کر اپنے بطلان کا ثبوت دے دے گا۔ مثلا سورۃ انفال کی آیت (٨) میں گزر چکا ہے۔ (لیحق الحق ویبطل الباطل) اور یہاں بھی آیت (٨٢) میں ایسی ہی تعبیر اختیار کی ہے۔ یہ تعبیر قرآن کے دقائق براہین میں سے ہے جس کی تشریح تفسیر سورۃ فاتحہ میں دیکھنی چاہیے۔