سورة یونس - آیت 57

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو! یقیناً تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آگئی اور جو سینوں میں ہے اس کے لیے سراسر شفا ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت آئی ہے۔“ (٥٧)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٥٧) میں قرآن کے چار وصف بیان کیے۔ (ا) موعظت ہے۔ یعنی دل میں اتر جانے والی دلیلوں اور روح کو متاثر کرنے والے طریقوں سے ان تمام باتوں کی ترغیب دیتا ہے جو خیر و حق کی باتیں ہیں اور ان تمام باتوں سے روکتا ہے جو شر اور بطلان کی باتیں ہیں۔ کیونکہ عربی میں وعظ کا مفہوم صرف نصیحت ہی نہیں ہے بلکہ ایسی نصیحت جو موثر دلائل اور دلنشیں اسلوبوں کے ساتھ کی جائے۔ (ب) شفاء لما فی الصدور۔ دل کی تمام بیماریوں کے لیے نسخہ شفا ہے۔ جو فرد اور جوگروہ بھی اس نسخہ پر عمل کرے گا اس کے قلوب ہر طرح کے مفاسد و رذائل سے پاک ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ عربی میں قلب فواد اور صدر کے الفاظ جب کبھی ایسے موقع پر بولے جائیں جیسا کہ یہ موقع ہے تو ان سے مقصود انسان کی معنوی حالت ہوتی ہے۔ یعنی ذہن و فکر کی قوت، عقلی ادراک، جذبات و عواطف، اخلاق و عادات، اندرونی حسیات، وہ عضو مقصود نہیں ہوتا جو فن تشریح کا دل اور سینہ ہے۔ پس دل کی شفا کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی فکری اور اخلاقی حالت کے جس قدر مرض ہوسکتے ہیں ان سب کے لیے یہ نسخہ شفا ہے۔ (ج) یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (د) یقین کرنے والوں کے لیے پیام رحمت ہے۔ یعنی ظلم و قساوت اور بغض و تنفر سے دنیا کو نجات دلاتا اور رحمو محبت اور امن و سلامتی کی رح سے معمور کرتا ہے۔ یہ محض قرآن کے اوصاف کا مدعیانہ اعلان ہی نہ تھا بلکہ اس کی صداقت کی سب سے زیادہ موثر دلیل بھی تھی، اگر ایک شخص دعوی کرے کہ وہ طبیب ہے تو سب سے زیادہ سہل اور قطعی طریقہ اس کے دعوے کی جانچ کا یہ ہوگا کہ دیکھا جائے اس کے علاج سے بیماروں کو شفا ملتی ہے یا نہیں؟ اگر تم دیکھو کہ موت کی آغوش میں پہنچے ہوئے بیمار اس کے شفا خانہ میں داخل ہوئے اور تندرست ہو کر نکلے، تو تم یقینا تسلیم کرلو گے کہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔ قرآن نے بھی جابجا یہی جانچ منکروں کے سامنے پیش کی ہے، اس نے کہا میں نسخہ شفا ہوں اور ثبوت میں مومنوں اور متقیوں کی جماعت پیش کردی جو اس کے دار الشفا میں تیار ہوئی تھی کہ دیکھ لو، یہ تندرست ہوگئے ہیں یا نہیں؟ آج بھی اس کی یہ دلیل اسی طرح قاطع ہے جس طرح عہد نزول میں تھیِ اگر اس نے عرب جاہلیت کے مریضاں روح و دل میں سے ابوبکر، عمر، علی، خالد، سلمان، ابو ذر وغیرہم جیسی تندرست روحیں پیدا رکدی تھیں، تو کیا اس کے نسخہ شفا ہونے میں شک کیا جاسکتا ہے ؟ مشرکین عرب نے اپنے اوہام و خرافات کی بنا پر بہت سی چیزوں کا استسعمال حرام ٹھہرا لیا تھا، چنانچہ سورۃ انعام میں آیت (١٣٨) سے (١٥٠) تک اس کا فمصل بیان گزر چکا ہے اور یہاں آیت (٥٩) میں بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے، اس آتی سے اور اس کی ہم معنی آیات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ : (ا) قرآن کے نزدیک ان تمام چیزوں میں جو کھانے پینے کی پیدا ہوتی ہیں اصل اباحت ہے نہ کہ حرمت، یعنی جتنی چیزیں کھانے کے قابل ہیں سب حلال ہیں الا یہ کہ وحی الہی نے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیا ہو۔ چنانچہ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ اس نے صرف انہی چیزوں سے روکا ہے جو خبائث ہیں۔ یعنی مضر اور گندی ہیں، باقی جتنی چیزیں ہیں طیبات ہیں۔ (ب) کسی چیز کو حرام ٹھہرا دینے کا حق صرف خدا کی شریعت کو ہے، پس کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ محض اپنے قیاس و رائے سے کوئی چیز حرام ٹھہرا دے۔ (ج) قراان نے جن باتوں کو افترا علی اللہ سے تعبیر کیا ہے، یعنی خدا پر بہتان باندھنا، ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ بغیر نص قطعی کے محض اپنی رائے اور قیاس سے کوئی چیز حرام ٹھہرا لی جائے۔ (د) انسان کے عقائد و اعمال کی بنیاد علم و یقین پر ہونی چاہیے، نہ کہ وہم گمان پر، وہ مشرکوں کی بنیادی گمراہی یہی قرار دیتا ہے کہ علم و یقین کی کوئی روشنی اپنے سامنے نہیں رکھتے، محض اوہام و ظنون کے پرستار ہیں۔ نزول قرآن سے پہلے اقوام عالم کی ایک عالمگری گمراہی یہ تھی کہ کھانے پینے کے بارے میں طرح طرح کے وہمی قاعدے بنا لیے تھے حلت و حرمت کی بنیاد علم و حقیقت کی کسی روشنی پر نہ تھی، محض اوہام و خرافات پر تھی، قرآن نے نوع انسان کو اس حالت سے نجات دلائی۔ اس نے اعلان کیا کہ زمین میں جتنی اچھی چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں سب اسی لیے ہیں کہ انسان انہیں برتے اور خدا کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اس کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو حرام ٹھہرا دے۔ یہ آیت ان تمام فقہائے متشددین کے خلاف حجت قاطع ہے جنہوں نے محض رائے و قیاس سے بعض مباحات حرام ٹھہرا دی ہیں اور ان تمام لوگوں کے خلاف بھی جو سمجھتے ہیں مباحات کا دائرہ اپنے اوپر تنگ کرلینا تقوی اور تقرب الہی کی بات ہے۔ قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ کسی بات کے ٹھہرا دینے اور قطعی طور پر نافذ کردینے کے لیے کتابت کی تعبیر اختیار کرتا ہے یعنی یہ کہتا ہے یہ بات لکھ دی گئی ہے۔ مثلا (کتب علیکم الصیام) (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا فی کتاب اللہ) (کتب علیہ انہ من تولاہ فانہ یضلہ) اسی طرح اس مطلب کے لیے کہ حکمت الہی نے کارخانہ ہستی کی ہر چیز کے لیے ایک قانون بنا دیا ہے اور یہاں جو کچھ ظہور میں آتا ہے وہ سب کچھ ضبط میں آچکا ہے۔ کتابت اور کتاب کی تعبیر جابجا ملتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی آیت (٦١) میں فرمایا : آسمان و زمین میں ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جو کتاب مبین کے انضباط سے باہر ہو، یعنی علم الہی سے باہر ہو یا اللہ نے جو قوانین خلقت ٹھہرا دیے ہیں ان کے احاطہ سے باہر ہو۔ احکام و قوانین کا شاہی فرمانوں میں لکھ دینا اور شاہی دفاتر میں درج کریدنا دنیا کی نہایت پرانی رسم ہے۔ اس لیے تقریبا تمام زبابوں میں کسی بات کے لکھ دینے کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ بات پکی ہوگئی اور اب اس میں ردو بدل کی گنجائش نہیں، باہمی عہد و پیمان بھی لکھے جاتے تھے اور جب لکھ دیے گئے تو سمجھا جاتا تھا اب ان کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ عربی میں بھی یہ تعبیر قدیم سے موجود ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے بھی اسی معنی میں یہ تعبیر اختیار کی ہے، البتہ یہ ظاہر ہے کہ ہم جزم و یقین کے ساتھ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے اور عالم غیب کے حقائق ہماری عقل کی دسترس دے باہر ہیں۔