سورة الاعراف - آیت 168

وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا ان میں سے کچھ نیک تھے اور کچھ اس کے علاوہ تھے اور ہم نے اچھے حالات اور برے حالات کے ساتھ ان کی آزمائش کی کہ شاید وہ باز آجائیں۔“ (١٦٨)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(ق) آیت (١٦٨) میں اس قانون الہی کی طرف اشارہ ہے کہ جب کوئی جماعت بدعملی و فساد میں مبتلا ہوتی ہے تو اس کا مہلک نتیجہ فورا ظاہر نہیں ہوجاتا بلکہ تدریج و امہال کی وجہ سے یکے بعد دیگرے مہلتیں ملتی رہتی ہیں کہ اصلاح حال پر آمادہ ہوجائے۔ فرمایا ہم نے انہیں الگ الگ گروہ کر کے زمین میں متفرق کردیا، یعنی بنی اسرائیل کی قومی وحدت باقی نہیں رہی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منتشر ہوگئے، یہ تباہی کی ابتدا تھی تاہم ابھی نیک جماعیں بالکل معدوم نہیں ہوگئی تھیں۔ لیکن اس دور کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئیں وہ عمل و حقیقت سے یکسر محروم ہوگئیں۔ (ر) چنانچہ علمائے یہود کا یہ حال ہوگیا کہ دنیا کے حقیر فوائد کے لیے دین فروشی کرتے، ناجائز باتوں کو جائز بنا لیتے اور سمجھتے ہمارے لیے کوئی کھٹکا نہیں، خدا ہمیں بخش دے گا۔ جب کسی گروہ میں عمل اور حقیقت کی روح باقی نہیں رہتی تو ارتکاب معاصی میں چھوٹ ہوجاتا ہے اور عمل کی جگہ محض خوش اعتقادی کے خود ساختہ سہاروں پر اعتماد کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ یہی حال یہودیوں کا ہوا جو سمجھتے تھے ہم خدا کی پسندیدہ امت ہیں، آتش دوزخ ہم پر حرام کردی گئی ہے اور یہی حال اب مسلمانوں کا ہوگیا ہے جو سمجھتے ہیں ہم امت مرحومہ ہیں۔ آتش دوزخ ہم پر حرام کردی گئی ہے، اگر کچھ مواخذہ ہوگا بھی تو کسی پیر کی مریدی، یا کسی وظیفہ کا ورد یا کسی خاص نماز کی مداومت یا مجالس میلا کا انعقاد اور عرسوں کی شرکت بخشش ونجات کے لیے کافی ہے۔ (ش) پہلے آیت (١٥٩) میں کہا تھا کہ قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہدایت پر چلتے ہیں۔ یہاں فرمایا جو لوگ کتاب اللہ پر سچائی کے ساتھ عمل کرتے ہیں ان کا اجر ضائع ہونے والا نہیں۔ دونوں جگہ یہ صراحت اس لیے کی تاکہ واضح ہوجائے جو لوگ سچائی پر قائم رہے ان کی سعادت سے انکار نہیں۔ (ت) اس حقیقت کا اعلان کہ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور فطرت انسانی کی اصلی آواز بلی ہے۔ یعنی تصدیق ہے انکار نہیں ہے، اور اسی لیے کوئی انسان اپنی غفلت کے لیے معذور نہیں ہوسکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ آبا و اجداد کی گمراہی سے میں بھی گمراہ ہوگیا۔ کیونکہ اس کے وجود سے باہر گمراہی کے کتنے ہی موثرات جمع ہوجائیں لیکن اس کی فطرت کی اندرونی آواز کبھی دب نہیں سکتی بشرطیکہ وہ خود اس کے دہانے کے درپے نہ ہوجائے اور اس کی طرف سے کان بند نہ کرلے۔