أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور کیا تم نے عجیب سمجھا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک آدمی پر نصیحت آئی، تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم بچ جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (٦٣)
(١) (ب) اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں، مذہبی سچائی کی اصلی بنیاد یہی ہے اسی لیے قرآن نے تمام پیغمبروں کی زبانی اسے نقل کی ہے۔ انسانی ذہن و ادراک صرف محسوسات کا سطحی علم حاصل کرسکتا ہے لیکن اس سے آگے کیا ہے؟ اس کے علم کا اس کے پاس کوئی عقلی ذریعہ نہیں۔ انبیائے کرام کا اعلان یہ ہے کہ ان کے پاس ایک ذریعہ موجود ہے اور وہ وحی ہے۔ چونکہ انسان کے پاس ہدایت وحی کے خلاف کوئی یقینی روشنی موجود نہیں اور چونکہ بغیر اس علم کے قبول کے کارخانہ حیات کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور چونکہ وہ وجدانی طور پر اس کی طلب بھی رکھتا ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ اس اعلان کے آگے سر تسلیم خم کردے۔ اگر نہیں کرے گا تو وہ یقین و طمانیت کی جگہ شک و ظن کی زندگی کو ترجیح دے گا۔