وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
” اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا تو فرمائے گا اے جنوں کی جماعت ! بلاشبہ تم نے بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لیا اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے اے ہمارے رب! ہم ایک دوسرے سے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنی اس مدت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کی تھی اللہ فرمائے گا آگ ہی تمہارا ٹھکانا ہے تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو مگر جو اللہ چاہے بے شک آپ کا رب کمال حکمت والا سب کچھ جاننے والا ہے۔
(ف1) دنیا میں گناہ کے لئے قدم قدم پر آسانیاں ہیں ، جہاں چاہو ، جب چاہو ، نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب کرلو مشکل یہ ہے کہ نیک بنو شرارت اور گناہ کے بےشمار وداعی اور اسباب ہیں ، نیکی اور صداقت کے محرکات کم ہیں ایک طرف نفس امارہ ہے ، اس کی خواہشیں ہیں ، شیاطین کے دامہائے تزویر ہیں ، اور دھوکے ہیں ، کچھ پنہاں ہیں ، کچھ ظاہر ہیں، دوسری جانب تنہا عقل ، جس کی بیچارگی معلوم ۔ ان آیات میں نہایت سادہ انداز میں اس حکیمانہ حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ، قیامت کے دن اللہ شیطانوں سے کہے گا ، تم نے بہت گمراہی پھیلائی ، آج مکافات کا دن ہے ، آؤ تمہیں سزا دیں ، کمزور ایمان کے لوگ جو شیطان کے بھرے میں جلد آجاتے ہیں ، اعتراف کریں گے کہ ہم نے دنیا میں ان سے تعاون کیا ، اور ہم دونوں مجرم ہیں ۔ حل لغات : إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ: تاکید مضمون کے لئے ہے یعنی جہنم سے تمہیں کوئی قوت نہیں نکال سکتی ۔