قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
” فرما دیں کہ کون تمہیں خشکی اور سمندر کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے ؟ تم اسے عاجزی اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اس سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں سے ہوجائیں گے۔
(ف2) انسان میں یہ عجیب نفسی کمزوری ہے ، کہ جب مصیبت میں مبتلا ہو ، جب چاروں طرف سے گھر جائے ، اور مخلصی کی تمام راہیں مسدود ہوجائیں جب لق ودق صحراؤں میں گم ہوجائے جب جہاز پر بیٹھے ، اور ہر آن غرق ہوجانے کا خطرہ موجود ہو ‘ اس وقت اللہ کو یاد کرتا ہے ، خلوص وتضرع سے اس کا نام لیتا ہے ، اور اس کی استعانت کے لئے بےقرار ہوجاتا ہے ۔ مگر جہاں مصیبت دور ہوئی ، خطرہ کا وقت گزر گیا پھر سرکشی اور تمرد عود کر آیا ، پھر تغافل اور شرک نوازی میں مشغول ہوگیا ، یا تو صرف اللہ کا نام تھا ، یا اب اپنی قوت اور تدبیر پر اعتماد ہے اپنی عقل کی تعریف ہے دنیوی اور مادی سہاروں پر بھروسہ ہے ، یہ نیرلگی وبوالجمی لائق عبرت ہے ، اس آیت میں اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہا یہ گیا ہے جب مصیبتوں اور مشکلات میں خدا کو یاد کرتے ہو تو پھر آسودگی اور رفاہیت میں اسے فراموش کردینے ، اور بھول جانے کے کیا معنی ۔