سورة الانعام - آیت 31

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یقیناً خسارے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا، یہاں تک کہ جب ان کے پاس قیامت اچانک آ پہنچے گی کہیں گے ہائے افسوس اس پر جس میں ہم نے کوتاہی کی اور وہ اپنے بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائے ہوں گے سن لو برا ہے وہ بوجھ جو وہ اٹھائیں گے۔“

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) قیامت کے کئی نام ہیں ، ان میں ایک الساعۃ بھی ہے یعنی وقت مقرر اور متعین پر آنے والی ۔ بَغْتَةً سے مراد یہ ہے کہ گو وہ مقدر ہے ، مگر دنیا والوں کو اس کا صحیح صحیح علم نہیں وہ اچانک غیر متوقع طور پر آجائے گی ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ یہ مکے والے جو خدا سے نہیں ڈرتے ، جنہیں یوم حساب کا کوئی خوف نہیں ، بےدھڑک اور بلاتامل نافرمانیوں میں مبتلا اور مصروف ہیں ، یہ اس وقت کیا جواب دیں گے ، جب قیامت اچانک آکر ان کی مسرتوں کا خاتمہ کر دے گی ، اور یہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے ، گناہوں پر پیٹھ کے لادنے کے معنی یہ ہیں کہ گناہ کا وزر اور بوجھ نتائج کی شکل میں یہ بھگت رہے ہوں گے یا محسوس کر رہے ہوں گے ، یہ بھی ہو سکتا ہے اس وقت اعمال کوئی جسمانی قالب اختیار کرلیں ، حل لغات: بَغْتَةً: اچانک ، ناگہان ، غیر متوقع انداز میں ، فَرَّطْنَا: تقصیر اور کوتاہی کرنا ۔