يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم میں سے کسی کو موت آپہنچے تو وصیت کے وقت تمہارے درمیان شہادت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی دو عدل والے ہوں یا تمہارے غیر میں سے کوئی اور دوہوں، اگر تم سفر کر رہے ہو اور تمہیں موت کی مصیبت آپہنچے دونوں کو نماز کے بعد روک لو اگر شک کرو، پس وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس کے بدلے کوئی قیمت نہیں لیں گے اگرچہ وہ قرابت والا ہو اور نہ اللہ کی شہادت چھپائیں گے بے شک اگر ایسا کریں ہم تو اس وقت گنہگاروں سے ہوں گے۔“
(ف2) اس سے پیشتر کی آیت میں حفظ نفس کا ذکر اور اس میں حفظ مال کا ۔ واقعہ یہ ہے کہ تمیم انصاری اور اس کا بھائی تجارت کی غرض سے ملک شام کی جانب نکلے ، اس کے ساتھ بدیل عمرو بن عاص کا غلام بھی تھا ، جو مسلمان تھا راستے میں بدیل یکایک بیمار ہوگیا ، اس لئے احتیاطا اس نے اپنے سامان کی ایک فہرست مرتب کرلی ، اور وصیت کی کہ اگر میں مرجاؤں تو میری چیزیں میرے گھر پہنچا دینا ، چنانچہ وہ مر گیا ، اور ان کی نیت میں فرق آگیا ، کچھ چیزیں انہوں نے دیں اور کچھ رکھ لیں ، اتفاقا چیزوں کی فہرست جو انہوں نے دیکھی تو خیانت ظاہر ہوگئی مقدمہ حضور (ﷺ) کے روبرو پیش ہوا ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ حل لغات : شَهَادَةُ: گواہی ،