وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
” اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور اس پر محافظ ہے، پس ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں اس میں آزماتا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کالوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔“
مصدق ومہیمن کتاب : (ف1) قرآن حکیم کے متعلق یہاں ارشاد ہے کہ وہ حق وصداقت ہے یعنی حالات وضروریات کے بالکل موافق اور مطابق ہے اور مصدق ہے یعنی تمام پیشگوئیاں جو پہلی کتابوں میں مرقوم تھیں ، قرآن پاک کے نزول سے ثابت ومتحقق ہوگئی ہیں یعنی تصدیق کے معنی یہاں سچا ثابت کرنے کے ہیں جیسے شاعر کہتا ہے ۔ فوارس صدقت فیھم ظنونی اور مھیمن بھی ہے یعنی پہلی کتابوں کی صداقت پر شاہد اکبر جیسے حضرت حسان (رض) فرماتے ہیں ۔ انا الکتاب مھیمن بیننا والحق العرفہ ذوالالباب (ترجمہ) تورات وانجیل حضور (ﷺ) کی صداقت پر گواہ ہیں اور سچائی کو سب عقلمند جانتے پہچانتے ہیں ۔ مقصد یہ کہ قرآن حکیم کی حیثیت گواہ اور شاہد کی ہے یہ نہ ہو تو پہلی کتابیں یکسر مشکوک ٹھہریں ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ ﴾سے مراد یہ ہے کہ اب قرآن حکیم کے نزول کے بعد قرآن ہی حکم رہے گا ، آپ مجاز نہیں کہ کسی دوسری چیز کو کوئی وقعت دیں ۔ ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کو حالات وظروف کے ماتحت ایک طریق نجات بتایا ہے ، اس لئے یہ اختلاف ادیان بہرحال باقی رہے ، آپ گھبرائیں نہیں خدا کی مشیت کا تقاضا اگر یہ ہوتا کہ سب آپ کی دعوت کو قبول کرلیں تو سرے سے اختلاف ہی پیدا نہ ہوتا اور تمام قومیں ایک قوم کی شکل میں نظر آتیں ، اور جب ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ مقصد اپنے اپنے زمانے میں خیرات وحسنات کی طرف سبقت لے جانا ہے ۔ اس لئے آپ بدستور ﴿مَا أَنْزَلَ اللَّهُ ﴾کی تبلیغ میں مصروف رہیں اور یہود ونصاری کے جذبات وامیال سے کامل احتراز اختیار کریں ۔ حل لغات : مُهَيْمِن: شاہد ۔