وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
تم سے یہ نہیں ہوسکے گا کہ اپنی بیویوں میں پوری طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش کرو۔ اس لیے بالکل ہی ایک طرف مائل ہو کر دوسری کو لٹکتی ہوئی نہ چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرلو اور تقوی ٰاختیار کرو تو بے شک اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے
ممکن عدل : (ف1) آیت نشوز کے بعد تعدد ازدواج کا ذکر اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ یہ بجائے خود اختلاف اور عداوت کا باعث ہے ، اس لئے بجز مخصوص حالات کے کسی معمولی قوت ونفوذ کے آدمی کو تعدد وازدواج کی جرأت نہ ہونی چاہئے ۔ ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا﴾کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی عدل ممکن نہیں جس کا تعلق جذبات سے ہے ، اس لئے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان جو اسوہ جمیل کے ساتھ نوازا گیا ہے ، ان الفاظ میں معذرت خواہ ہے ” هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِمَا لَا أَمْلِكُ “۔ یعنی اے خدا جہاں میرے امکان میں ہے میں انصاف وعدل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا مگر بعض منزلیں ایسی بھی ہیں جہاں مساوات قطعا ناممکن ہے ﴿فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ﴾کہہ کر امکانی حدود کی توضیح فرما دی ہے کہ ایک بیوی پرایسا نہ ریجھ جاؤ کہ دوسری بالکل ہی فراموش ہوجائے ، جن لوگوں نے تعدد ازدواج کی ممانعت اس آیت سے سمجھی ہے وہ غلطی پر ہیں آیت کا انداز بیان صاف طور پر اسے ایک حقیقت مسلمہ قرار دیتا ہے ۔