وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد سکونی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں (کچھ حقوق کی کمی و بیشی پر) صلح کرلیں اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں۔ صلح بہت بہتر ہے اور لالچ ہر نفس میں پایا جاتا ہے۔ اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو تم جو کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ پوری طرح خبر دار ہے
(ف ٢) مرد و عورت میں بعض اوقات شکر رنجی ہوجاتی ہے اور عدم التفات کے باعث وہ خوف ناک نتائج پر منتج ہوتی ہے ، قرآن حکیم جو فلسفہ تدبیر منزل کو بالخصوص اہمیت ووضاحت سے بیان کرتا ہے اس باب میں یہ ہدایت دیتا ہے (آیت) ” ان یصلحا بینھما “۔ کہ دونوں صلح ومحبت کی فضا پیدا کرنے میں ایک دوسرے کے ممد ومعاون ہوں ۔ قرآن کے پیش نظریہ حقیقت نفسی بھی ہے کہ بالطبع لوگ ذات وبخل میں زیادہ رغبت رکھتے ہیں یعنی اپنے حقوق سے دست بردار ہونے کے لئے قطعا تیار نہیں ، اس لئے اس کا ارشاد یہ ہے کہ احسان واقعتا اختیار کریں اور دونوں ایثار وخلوص سے کام لیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اگر اپنے حقوق سے زیادہ فرائض کی تکمیل پر زور دیں تو کبھی اختلاف پیدا نہ ہو ۔ حل لغات : نشوز : عورت کا خاوند سے موافقت نہ کرنا ۔ الشح : بخل حرص آز ۔