سورة البقرة - آیت 54

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب موسیٰ(علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے رب کے حضور توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو تمہارے رب کے نزدیک اسی میں بہتری ہے پھر اس نے تمہاری توبہ قبول کی وہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم فرمانے والا ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

قوموں کا آپریشن : (ف2) جس طرح بدن کے بعض حصے اس لئے کاٹ دینا پڑتے ہیں کہ وہ سارے نظام بدن کو بیکار نہ کردیں ، اسی طرح قوموں میں جب ناقابل اصلاح خرابیاں پیدا ہوجائیں تو پھر آپریشن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے باوجود ہارون (علیہ السلام) کے موجود ہونے کے دوبارہ بچھڑے کی پوجا شروع کردی جس کے وہ مصر میں عادی تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ان لوگوں کو جن کی رگ رگ میں شرک کے مہلک جراثیم موجود ہیں ‘ ہلاک کردیا جائے ، ورنہ خطرہ ہے کہ تمام بنی اسرائیل اس روحانی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں اور پھر اصلاح کی کوئی توقع نہ رہے گی ۔ اس میں شک نہیں کہ خدا رحیم ہے لیکن یہ بھی یقین ہے کہ وہ حکیم بھی ہے ، رحمت کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو کسی طرح اس مرض سے بچا لیا جائے اور حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ بدن کے متعفن حصے کو الگ کردیا جائے ، اس لئے جو کچھ ہوا ، یہ ضروری تھا ، اسی لئے ارشاد ہے ﴿ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ﴾۔ حل لغات : بَارِئِكُمْ: الباری خدا کا نام ہے پیدا کرنے والا ۔