وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی
(ف ٢) یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ سے بنی اسرائیل مصر میں آکر آباد ہوئے ، موسیٰ (علیہ السلام) تک ان کو تقریبا چار صدیاں ہوئی ہیں ، اس عرصے میں قبطیوں نے تمام مناصب پر قبضہ جما لیا اور سارے نظام حکومت پر چھا گئے ، بنی اسرائیل کے لئے سوائے محنت ومزدوری اور کوئی کام باقی نہ رہا ، ادھر فراعنہ نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل زیادہ قوی اور ذہین ہیں تو انہیں خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ساری حکومت ہی ان کے ہاتھ میں نہ آجائے ، عموما حکومتیں زور آور توانا قوموں سے خائف رہتی ہیں ، اس لئے انہوں نے اور زیادہ مظالم توڑے تاکہ ان میں رہی سہی قوت بھی جاتی رہے ، بالاخر جب کاہنوں نے فرعون کو ڈرایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شان دار انسان پیدا ہونے والا ہے جس سے تیری جابرانہ حکومت خطرہ میں پڑجائے گی تو اس نے بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا اور بچیوں کو خدمت وغیرہ کے لئے زندہ باقی رکھا ، ان آیات میں ان ہی واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس ذلت وخفت سے نجات دی ، تم میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جس نے تمہیں آزادی وحریت کی نعمتوں سے بہرہ ور کیا ۔