سورة القيامة - آیت 1

لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سورۃ القیامہ (ف 1) لا صرف ترئین واستہلال ہے ۔ قسم سے پہلے بطور افتتاح کے عام طور پر عربی لٹریچر میں آتا ہے ۔ امراءلقیس کے ایک قصیدہ کا آغاز یوں ہوتا ہے ۔ لا وَأَبيكَ اِبنَةَ العامِرِيِّ لا يَدَّعي القَومُ أَنّي أَفِر یوم قیامت اور نفس لوامہ میں مناسبت یہ ہے کہ دراصل برے فعل پر نفس کی ملامت نفسیاتی نقطہ نگاہ سے ہلکی سی عقوبت اور سزا ہے ۔ اور اس کو اگر پھیلا کر آپ دیکھئے اور ممثل شکل میں ملاحظہ کیجئے گا تویہی وہ نظام قیامت ہے جس کو قرآن حکیم پیش فرماتا ہے اور جو مشرکین مکہ کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ قرآن حکیم دراصل انسان کی توجہ کو خود اس کے باطن کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہے ۔ اور یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم لوگ نظام مکافات اور آخرت وبعثت کے تخیل کی مخالفت تو کرتے ہو مگر یہ نہیں دیکھتے کہ یہی چیز چھوٹے پیمانے پر خود تمہارے اندر موجود ہے ۔ اور ہر آن اور ہر لحظہ تم اس سے دوچار ہوتے ہو اور یہ نفس لوامہ ہے ۔ فرمایا کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو جمع نہیں کرسکیں گے اور ان کو دوبارہ زندگی نہیں عنایت کرسکیں گے حالانکہ ہم کو یہ قدرت حاصل ہے کہ ہم ان کی انگلیوں کی پوروں تک کو اکھٹا کرکے درست کردیں ۔