سورة النسآء - آیت 64

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ہم نے ہر رسول کو صرف اسی لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول کی فرمانبرداری کی جائے اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تو تمہاری خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور آپ بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

رسول بجائے خود مطاع ہے : (ف2) اس آیت میں بتایا ہے کہ منافقین اگر حضور (ﷺ) کے پاس آکر سچے دل سے طلب مغفرت کریں اور رسول (ﷺ) ان کے خلوص سے متاثر ہو کر ان کے لئے استغفار کرے تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیں گے ۔ یعنی جب تک ان کے خلوص پر مہر رسالت ثبت نہ ہو اور جب تک خدا کا پیغمبر (ﷺ) یہ نہ کہہ دے کہ یہ خالصۃ اب میرے ہمنوا ہوگئے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ انہیں عفو توبہ کا مستحق قرار نہیں دیتا ۔ ﴿إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ﴾ سے مراد یہ ہے کہ رسول مطاع مطلق ہے ، اس کا وجود بجائے خود حجت وسند ہے ، اس کی ہر ادا صبغۃ اللہ میں رنگین ہوتی ہے ۔ اس کا ہر قول وفعل مستفاد ہوتا ہے منشائے الہی سے ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾۔ اس لئے یہ کہنا کہ رسول (ﷺ) کی ذات وافعال لازم اطاعت نہیں قرآن ناطق کی توہین ہے ۔ وہ لوگ جو منصب نبوت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، کسی طرح بھی اسوہ حسنہ کو قرآن سے الگ کوئی چیز قرار نہیں دے سکتے ۔