سورة المعارج - آیت 22

إِلَّا الْمُصَلِّينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

مگر وہ لوگ جو نماز پڑھنے والے ہیں۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

نمازی کی سیرت (ف 2) قرآن حکیم میں یہ خوبی شان امتیاز رکھتی ہے کہ اس میں حقائق نفسیات کا بھی ذکر ہے ۔ یعنی اس کتاب علم ومعرفت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانی فطرت کیا ہے ؟ فرمایا اس میں ایک ہمہ گیر عیب یہ ہے کہ یہ کم ہمت اور بےصبر ہے ۔ اگر اس کو ذرا تکلیف پہنچتی ہے تو بلبلا اٹھتا ہے اور نالہ وشیون سے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اور جہاں بیٹھتا ہے اسی بات کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں بہت مصیبت زدہ ہوں مجھ کو فلک ستم شیوہ نے بہت دکھ پہنچایا ہے ۔ اور اگر برے دن پھرجائیں اور آسودہ حال ہوجائے تو پھر انتہا درجے کا بخیل اور ممسک ہوجاتا ہے پائی پائی کو گنتا ہے اور پیسے پیسے کا حساب رکھتا ہے ۔ اور اگر کوئی محتاج اور فقیر اس کے دروازے پر دستک دے اور صدقہ اور خیرات کی آرزو رکھے تو اس کو مایوس کرکے لوٹاتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ میں نے جو دولت حاصل کی ہے اپنی محنت اور قابلیت سے کی ہے تم کو کیوں دوں ۔ اور تمہارے خدا کا کیا احترام کروں جاؤ خود کماؤ اور خود کھاؤ۔ ہاں نمازی اس عیب سے یک قلم بری ہوتے ہیں ۔ خدائے آسمان وزمین کی عبادت کی وجہ سے ان کا ظرف عالی ہوجاتا ہے ۔ ان کا تعلق چونکہ بڑی سرکار سے ہوتا ہے اس لئے قلب میں وسعت اور حوصلہ مندی نمایاں ہوتی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دائما اس ذوق عبودیت کے جذبہ کو برقرار رکھتے ہیں ان کے مال ودولت میں مانگنے والوں اور محتاجوں کا ایک مقرر حصہ ہوتا ہے ۔ یہ جب تک اس متعین مقدار کو ادا نہیں کرلیتے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے ۔ ان کے دروازے سے مایوس ہوکر نہیں لوٹتا ۔ ان کے دل میں خدا کا خوف ہوتا ہے یہ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور کیوں نہ ڈریں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی وقت بھی انسان آفات سماوی وارضی کی طرف سے محفوظ نہیں ہے ۔ یہ عفیف اور پاکباز ہوتے ہیں اور جنسیات پر پورا پورا ضبط واختیار رکھتے ہیں اور بجز اپنی رفیقہ حیات یا مملوکہ کے اور کسی سے جنسی تعلق نہیں رکھتے ۔ یہ اس لئے فرمایا کہ بالکل قطع تعلق اور جنسیات سے علیحدگی عفاف نہیں ہے جبکہ رہبانیت ہے جس کو اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ عفاف کے معنی اسلام میں یہ ہیں کہ بیوی تو موجود ہے مگر اس کے سوا اور کسی عورت سے جنسی تعلق نہ ہو ۔ ان میں یہ خوبی بھی ہوتی ہے انکو امانت اور عہد کا بہت پاس ہوتا ہے اور گواہی پر اپنی مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہیں ۔ اور پھر نمازوں پر کامل توجہ مبذول کرتے ہیں اور خشیت وخضوع کے ساتھ اس فرض کو ادا کرتے ہیں ۔ یہی لوگ عنداللہ مکرم اورمفتخر ہیں ۔ اور جن کے دائمی رہنے کی جگہ باغات ہیں ۔ واضح رہے کہ قرآن کی ان آیات میں عام انسانوں سے نمازی کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی فضیلت ان عام انسانوں سے الگ ہوتی ہیں ۔ اور پھر ان کی تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے بادنی تامل معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازی کی کتنی عزت وحرمت ہے اور وہ نمازی سے کن عادات واخلاق کا متوقع ہے ۔ نمازی کو یہاں بطور ایک صاحب سیرت انسان کے بیان کیا ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے لئے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ قبلہ رو ہوکر مسجد میں اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور چند مقررہ حرکات کو معرض عمل میں لے آئیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نماز کی حقیقی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے ظاہر کے ساتھ اس کی معنویت کو بھی اپنے میں پیدا کریں اس کو بر بنائے عادت اختیار نہ کریں بلکہ اصلاح وترفع کی ایک تحریک سمجھیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ مندرجہ بالا تمام خوبیاں خود بخود پیدا ہوجائیں گی ۔