سورة المعارج - آیت 3

مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اس اللہ کی طرف سے ہے۔ جو بلندیوں کا مالک ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سورہ المعارج (ف 1) ﴿سَأَلَ سَائِلٌ﴾ سے یا تو کوئی ایک شخص مراد ہے جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ نضربن حارث نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عذاب جس کا آپ وعدہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تکذیب کی صورت میں اس کا آنا ناگریز ہے وہ کیوں نہیں آتا وہ آئے اور ہم کو فنا کے گھاٹ اتاردے ۔ یا کوئی شخص مراد نہیں ہے بلکہ پوری قوم مراد ہے کہ نزول وعید کی پیشگوئی کو سن کر ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہوئے اور انہوں نے ان شکوک کا تذکرہ ایک دوسرے سے کیا ۔ اس پر اس سورت میں ﴿سَأَلَ سَائِلٌ﴾ کے انداز میں جواب مرحمت فرمایا گیا ۔ ﴿بِعَذَابٍ وَاقِعٍ﴾میں (با) ظن کے معنی میں ہے جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ بھی آیاہے ﴿فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا﴾ حالانکہ غرض یہ کہ فاسئل عنہ خبیرا ۔ ایک شعر ہے فَإِنْ تَسْأَلُونِي بِالنِّسَاءِ فَإِنَّنِي بَصِيرٌ بِأَدْوَاءِ النِّسَاءِ طَبِيبُ مقصد یہ ہے چونکہ بتقاضائے کرم وبخشش عذاب کے آنے میں تاخیر ہورہی ہے اس لئے یہ لوگ شک وارتعاب کا اظہار کررہے ہیں ۔ حالانکہ اس کے وقوع میں کوئی استحالہ نہیں ۔ جب وہ آجائے گا اس کو دنیا کی کوئی قوت ہٹا نہیں سکتی ۔ نادان یہ نہیں سوچتے کہ جس خدا نے اس بزم رنگین کو سجایا ہے وہ اس کو برباد کردینے پر کیوں قادر نہیں ۔ اگر وہ چاہے کہ اس ساری کائنات کو بوجہ اس کی نافرمانیوں کے ہلاک کردے تو کون ہے جو اسکے اس ارادے میں مزاحم ہوسکے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ وہ خدا جس کی جانب سے یہ عذاب آنے والا ہے وہ سراسر عفو وکرم کا مالک ہے اس لئے وہ مہلت دیتا ہے اور تم ہو کہ اس کی مہربانی سے بالکل ناجائز استفادہ کرتے ہو ۔ حالانکہ اس کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ تم لوگ ذیادہ ممنونیت سے اس کے سامنے جھک جا اور اس کی حمدوثنا کے زمزموں سے عالم انسانی میں گو نج پیدا کردو ۔ حل لغات : ذِي الْمَعَارِجِ ۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں ’’ ذِي الْعَظَمَةِ وَالْعَلَاءِ ‘‘ ۔ یعنی صاحب بخشش وکرم۔