سورة الحاقة - آیت 28

مَا أَغْنَىٰ عَنِّي مَالِيَهْ ۜ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) ہم دنیا میں اپنے مال ودولت پر مغرور تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ ثروت یہ کنوز اور خزائن ہمیں عاقبت میں بھی عزت وافتخار بخشیں گے ۔ اور جس طرح دنیا میں ہم تمول کی وجہ سے ہر نوع کی آسودگی حاصل کرلیتے ہیں شاید آخرت میں بھی اس کی بدولت جنت اور اس کی آسائشوں کو خریدا جاسکے گا ۔ مگر آہ کہ یہ خیال درست ثابت نہیں ہوا ۔ ان لوگوں کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا کہ ان کو پکڑلو اور طوق وسلاسل پہنادو اور پھر ایک طویل زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دو ۔ کیونکہ ان لوگوں کا اللہ پر ایمان نہ تھا ان کے دلوں میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی نہ تھی ان کے دل غریبوں کو دیکھ کر پسیجتے نہ تھے یہ اپنے دسترخوان سے مسکینوں کو کھانا نہیں دیتے تھے اور ان کو دیکھ کر ان کے لئے جذبات شفقت وہمدردی پیدا نہیں ہوتے تھے ۔ اس لئے آج ان کا یہاں کوئی دوست نہیں جو ان کو اس ذلت وخواری سے بچا لے اور کھانا بھی جو ان کو یہاں ملے گا وہ ﴿غِسْلِينٍ﴾کا سخت گنہگار ہی کھاسکتے ہیں ۔ جہنم اصل میں نام ہے ذلت وتحقیر کا اور اذیت وتکلیف کا اور پوری پوری اعمال کے مطابق سزا کا ۔ چونکہ کفار آزاد تھے اس لئے یہاں طوق وزنجیر سے ان کی تواضع کی گئی ۔ پیٹ اس کے قلب ودماغ پر بھاری تھا اس لئے کھانا وہ تجویز ہوا جو اس کو بتادے کہ اللہ کے نزدیک صرف کھانا پینا کوئی زندگی کی اہم غرض نہیں ہےاور جو اپنے سامنے زندگی کا نصب العین صرف یہ رکھتا کہ صبح ومسا پرتکلف اور بوقلمون کھانوں سے اپنے کام ودہن کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے وہ یہاں کتنا ذلیل اور حقیر کھانا کھاتا ہے ۔ پھر اس کا معیار دنیاوی یہ تھا کہ ٹھاٹ کے ساتھ رہے عالیشان مکان ہو اور ہر قسم کے سامان آسائش میسر ہوں ۔ یہاں اس کی سزا یہ ہے کہ جہنم ٹھکانا ہو آگ اور تپش اس کا اوڑھنا بچھونا ہو شعلے اور انگارے اس کا استقبال کریں ۔