سورة الحاقة - آیت 4

كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ثمود اور عاد نے اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کو جھٹلایا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سرچشمہ حیات سے بعد کا نتیجہ (ف 2) ان آیات میں یہ قانون واضح فرمایا ہے کہ کوئی قوم زندگی کا اس وقت تک استحقاق نہیں رکھتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت نہ کرے اور اپنی خواہشات کو اس کے ارادہ اور منشاء کے تابع نہ کردے ۔ کیونکہ مقدرات میں سے ہے کہ کوئی نفس اس سرچشمہ حیات ونور سے الگ رہ کر اپنی انفرادیت باقی نہیں رکھ سکتا ۔ چنانچہ جب کسی قوم نے اس اصول کو نہیں سمجھا اور اللہ کے حکموں کی پرواہ نہیں کی اس کا غصہ بھڑکا اور اس کو زندگی سے محروم کردیا ۔ ثمود وعاد کی قوم مٹادی گئی ۔ فرعون اور اس کا لاؤ لشکر قلزم میں اپنی عزت وحکمت سمیت ڈبودیا گیا ۔ قوم لوط کی بستیاں الٹ دی گئیں ۔ اور اسی طرح جب بھی کسی قوم نے سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے اللہ نے اس کے غرور کو خاک میں ملادیا ۔ اس کے بعد ایک دوسرے قانون کا ذکر فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ جہاں فاسقوں اور فاجروں کو اللہ نے سزا دی ہے وہاں عین حالت عذاب میں پاکبازوں کی حفاظت اور ان کی دستگیری کی ہے ۔ مثال میں حضرت نوح کو دیکھئے کہ اس وقت جب کہ آسمان کے دروازے کھل گئے اور زمین کے چشمے سمندر اگلنے لگے اللہ نے ان کو توفیق مرحمت فرمائی کہ اپنی اور مومنین کی حفاظت کیلئے ایک کشتی بنائیں اور اس کو بلا خطر اس طوفان میں ڈال دیں ۔ اور یہ اس لئے ہوا تاکہ منکرین یہ محسوس کریں کہ یہ عذاب محض اتفاق وبخت کا نتیجہ نہیں بلکہ علیم وحکیم خدا کے فیصلہ کے مطابق نازل ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں نافرمانوں کو غرق کیا گیا ہے وہاں مومنوں کو بھی بچایا گیا ہے ۔