سورة القلم - آیت 13

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بڑا بدعمل ہے، جفا کار ہے، اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

زنیم کے معنی (ف 1) ان آیات سے غرض یہ ہے کہ جب یہ واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہن اور فکر کے کمالات کے ساتھ حسن اخلاق سے بھی بدرجہ اتم نوازا ہے اور باوجود اس کے مکے والے نہیں مانتے اور رذائل وخبائث سے آلودہ ہیں ۔ آپ ان کے خیالات کا قطعاً احترام نہ کریں اور نہ ان کے جذبات کی رعایت ملحوظ رکھیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ کس طرح آپ کو معاذ اللہ مداہنت پر آمادہ کرلیں اور اس چیز پر راضی کرلیں کہ آپ ان کے عقائد وافکار کی مذمت نہ کریں اور اس ضمن میں کامل رواداری سے کام لیں ۔ مگر ہمارا فیصلہ ہے کہ آپ ان کے ایک ایک عیب کو کھلے بندوں بیان کردیں اور ان کو بتادیں ان اخلاق کے ساتھ یہ خواہشات حقیقت میں محض فریب خوردگی ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کی اخلاقی برائیاں گنائی ہیں ۔ فرمایا حق وصداقت کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہی نہیں نہایت بیباکی سے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور ذلیل اتنے ہیں کہ جھوٹ کو اپنے لئے باعث فخر خیال کرتے ہیں ہر آن ایک دوسرے کی عزت کے دشمن رہتے ہیں چغل خور اور غماز ہیں ۔ نیکی اور تقویٰ کی کوئی بات ان کو پسند نہیں ہر بھلے کام سے روکتے ہیں سرکش اور عادی مجرم ہیں نہایت برے اور فسق وفجور میں ممتاز ہیں۔ واضح رہے کہ زنیم کے لغوی معنی اس شخص کے بھی ہیں جو اپنے کو ایک معزز قوم کی طرف منسوب کرے حالانکہ وہ اس میں سے نہ ہو اور یہ بھی ہیں کہ وہ شر وفساد میں شان امتیاز رکھتا ہو جیسا کہ شعبی کا قول ہے ’’ يُعْرَفُ بِالشَّرِّ، كَمَا تُعْرَفُ الشَّاةُ بزنمتها ‘‘ پہلے معنوں کی تائید میں حضرت انسان کے اس شعر کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ وأنتَ زَنيم نِيطَ فِي آلِ هَاشِمٍ كَمَا نِيطَ خَلْفَ الرّاكِب القَدَحُ الفَرْدُ بہرحال ان آیات میں کفار مکہ کی سچی اخلاقی تصویر کھینچی ہے اور فرمایا کہ ان عادات سے متصف لوگ متکبر اور مغرور اس درجہ ہیں کہ جب ہماری آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو محض مال ودولت واعوان وانصار کے بھروسہ پر کہہ دیتے ہیں کہ یہ محض پہلوں کے افسانے اور قصے کہانیاں ہیں ۔ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم ان کے کبروغرور کو خاک میں ملادینگے اور اس اونچی ناک کو جس کی وجہ سے یہ حق کو قبول نہیں کرتے تحقیر وتذلیل سے آلودہ کردینگے ۔ حل لغات: عُتُلٍّ ۔ سخت آواز ۔ سخت مزاج ۔