سورة الملك - آیت 18

وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ان سے پہلے لوگ جھٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو کہ میرا عذاب کیسا سخت تھا

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فریب نفس کی بدترین مثال ف 1: اللہ تعالیٰ کا قانون ہے ۔ کہ وہ مجرموں کو سنبھلنے کی کافی مہلت دیتا ہے تاکہ تمام حجت ہوجائے ۔ اور ان کے پاس کوئی معقول عذر باقی نہ رہے ۔ وہ ڈھیل دیتا ہے ۔ اور درگزرعفوسے کام لیتا ہے ۔ تاکہ یہ اپنے طرز عمل پرغور کرسکیں مگر ان کے مزاج اس قدر بڑا ہوجاتے ہیں ۔ اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ کہ خدا ہم سے خوش ہے ۔ اور ہم اس کے عذاب سے ہمیشہ مامون اور محفوظ رہیں گے ۔ اس کا استدلال یہ ہوتا ہے ۔ کہا گر اس کو ہمارے افعال ناگوار ہوتے ۔ اور اس کے نزدیک ہم گنہگار ہوتے ۔ تو کبھی کے مٹ گئے ہوتے ۔ اور اس کے غضب نے ہمارا قصہ تمام کردیا ہوتا ۔ اب جو باوجودانکار اور کفر کے چین سے بسرہو رہی ہے ۔ تو اس کے صاف معنے یہ ہیں ۔ کہ ہمارے عقائد اس کو ناگوار نہیں ۔ اور وہ ہم کو حق بجانب سمجھتا ہے ۔ اس مغالطہ اور فریب نفس کو دور کرنے کے لئے فرمایا ۔ کہ تم لوگ اپنے کو اس درجہ گستاخ نہ بنالو ۔ اور اس درجہ نڈر نہ ہوجاؤ۔ کہ رب السموت کی پکڑ سے تمہارے بدن پر لرزہ طاری نہ ہو ۔ یاد رکھو تم دن اور رات کی ہر ساعت میں اللہ کی گرفت میں ہو ۔ وہ جب چاہے زمین کو اکٹ اے ۔ اور تم کو پیش کر رکھ دے اور جب چاہے آسمان سے پتھروں کا مینہ برسا دے ۔ اور تم کو بیخ ذہن سے اکھاڑدے ۔ پھر اس وقت تمہیں معلوم ہو کہ اس کا تنبیہ کتنا صحیح اور درست ہے تم سے پہلے بھی قوموں نے اللہ کے دین کو جھٹلایا ۔ اور تمہاری طرح خداع نفس میں مبتلا ہوگئے ۔ کہ ہمیں کون پوچھتا ہے ۔ اور کون سزا دیتا ہے ۔ کہ یکایک اللہ کا غضب بھڑکا اور ان کی بستیوں کو فناکے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اس وقت دنیا کی کوئی قوت ان کو نہ بچا سکی ۔ اور مال ودولت اور اعزاز فخر قطعاً ان کی سفارش نہ کرسکے ۔ ان حالات میں کیا تم یہ سمجھتے ہو ۔ کہ تم اس کے چہتے ہو تمہیں فسق وفجور کے باوجود وہ ضرور باقی رکھے گا ۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ اللہ کے نزدیک کوئی قوم چہتی نہیں ۔ وہ سب سے یکساں سلوک روا رکھتا ہے ۔ اور اس کے ہاں صرف ایک ہی قانون ہے ۔ مکافات کا جو سب کے لئے جاری ہے *۔