قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ
وہ کہیں گے ہاں! یقیناً خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا ہم نے کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے تم خود بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔
پردہ زنگاری میں (ف 1) سابقہ آیات میں یہ بتایا تھا کہ یہ نظام کائنات بہرنوع کامل ہے اس میں کوئی نقص وعیب نہیں ہے اور اس کو دیکھ کر بادنی تامل ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ اس کو بنانے والا اور کتم عدم سے وجود میں لانے والا کوئی صاحب علم وقدرت خدا ہے ۔ اس پردہ زنگاری کو دیکھ کر شبہ نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ اس میں کوئی معشوق ضرور پنہاں ہے ۔ اس زندگی وموت کے تسلسل کو مشاہدہ کرنے کے بعد کون ہے جو حی اور ممیت ذات کا انکار کرسکے اور اس سقف زنگار کی آرائش وخوبی کو دیکھ کر کس میں جرات ہے کہ اس نورانی جہان کو تسلیم نہ کرے ۔ پھر وہ لوگ جو ان سب چیزوں کو صبح ومساء دیکھتے ہیں اور ذات خداوندی اور ایمان کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہوتے ان کے لئے سوائے جہنم کے اور کہاں ٹھکانا ہوسکتا ہے ۔ یہ لوگ اس وقت تو اس ہولناک منظر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کیونکر اس آگ کی تپش اور حرارت کو برداشت کرسکیں گے جو مارے غصے کی پیچ وتاب کھاتی اور چیخ رہی ہوگی ۔ مگر جب ایک گروہ کی شکل میں ان کو دوزخ میں جھونکا جائیگا اور فرشتے ازراہ تحقیر پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نذیر نہیں آئے تھے ؟ جو تمہیں برائیوں سے روکتے اور انکار وتمرد سے منع کرتے ۔ کیا انہوں نے اس مقام کی سختیوں اور تکلیفوں کے متعلق تم سے کچھ نہیں کہا تھا تو اس وقت یہ لوگ اپنی کوتاہی فکر اور بدعملی کا کھلے لفظوں میں اعتراف کریں گے اور کہیں گے کہ بلا شبہ اللہ کے پیغمبر ہمارے پاس آئے تھے مگر ہم نے ان کو اس وقت تسلیم نہیں کیا اور الٹا ان کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ اگر اس وقت فہم وبصیرت سے کام لیتے حق بات کو سنتے اور دل میں اتارلیتے تو آج یہ روز بدو دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ مگر آہ کہ یہ اعتراف اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا اس وقت کا اقرار سوائے اس کے کہ حسرت اور کوفت میں اضافہ کردے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا ۔