يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
”اللہ“ کی تسبیح کر رہی ہے ہر چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے کہ اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
سورۃ التغابن تسبیح سے اس کا آغاز فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ دراصل بادشاہی اور اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ انسان تو محض اس کے امین ہیں پھر ان اختیارات کو اس نے جس طرح استعمال فرمایا ہے اس کے لئے وہ سزاوار حمدوستائش ہے ۔ کوئی چیز اور کوئی شے اس کے قبضہ اقتدار سے باہر نہیں پھر اس کے بعد اس حقیقت کی وضاحت فرمائی ہے کہ سب انسانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے ۔ کیا کافر اور کیا مومن اور وہ ان سب کے اعمال سے آگاہ ہے ۔ آسمانوں کو بھی اسی نے بلندی بخشی ہے اور زمین کو بھی اسی کے دست قدرت نے ہمارے پاؤں تلے بچھایا ہے ۔ اور وہ چھپی ڈھکی اور علانیہ بات سے آگاہ ہے ۔ معیار نبوت کی بلندی اور معیار الوہیت کی پستی ! (ف 1 )یہ عجیب بات ہے کہ کفار کے نزدیک معیار نبوت تو ہمیشہ ضرورت سے زیادہ بلند رہا اور معیار الوہیت ہمیشہ پست۔ یعنی انبیاء کا تو انہوں نے اس بناء پر انکار کیا کہ وہ فوق البشر قوتوں اور استعدادوں کے مالک ہیں وہ کیوں بشری تقاضوں کے سامنے جھکتے ہیں ۔ مگر خدا کے متعلق ان کی عقل نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ کوئی بڑی چیز نہیں ۔ انہوں نے بتوں پر قناعت کرلی درختوں اور پودوں کو مقدس مان لیا دریاؤں اور پہاڑوں کو معبود قرار دے لیا ۔ سانپوں اور اژدہوں کو خدا سمجھا اور زمین کے ہر بلند اور رفیع حصہ کو خلعت لاہوت سے نوازا ۔ یعنی یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ انسان کو اس عہدہ پر فائز نہیں ہونا چاہیےبلکہ اس منصب کا استحقاق وہ لوگ رکھتے ہیں جن میں الوہیت متجسد ہو ۔ جنہیں بھوک محسوس ہوتی ہو اور نہ پیاس ۔ جو اس عالم کے قوانین فطرت سے ایک قلم آزادہوں ۔ خدائی کے متعلق انکازاویہ نگاہ یہ ہے ہر خوفناک چیز اور ہر مرغوب کن شخصیت بلکہ ہر وہ چیز جس میں کچھ عجیب قدرت ہے بلاریب خدا ہے ۔ غور فرمائیے ان دونوں باتوں میں کتنا تضاد ہے ۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ سابقہ کفار نے بھی اللہ کے فرستادوں کا انکار محض اس بنا پر کردیا تھا کہ وہ بھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کرتے تھےاور کبھی دھوکہ نہیں دیتے تھے ۔ وہ صاف کہتے تھے ہم بشر ہیں ہم انسان ہیں ۔ ہم میں فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے ہم کو اس خدمت کے لئے منتخب فرمالیا ہے اور ہم اس کی طرف سے مامور ہیں کہ تمہاری اصلاح کریں اور تمہیں منکرات کے ارتکاب سے روک دیں ۔ وہ کہتے کہ ہم ایک اپنے ایسے انسان کو اپنے سے بہتر نہیں سمجھ سکتے اور پیغمبر نہیں قرار دے سکتے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹھکرانے کی وجہ سے عذاب آیا اور ان کے کبرونخوت کو ایک دم فنا کرکے رکھ دیا گیا ۔ ان نادانوں نے اتنا نہ سمجھا کہ وہ شخصیت جو کسوت انسانی میں نہیں ہے جس کی ضروریات اور تقاضے ہماری فطرت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے وہ ہماری راہنما کیونکر ہوسکتی ہے ۔ ہمیں تو ایسے قائد کی ضرورت ہے جو فطرتاً ہماری مشکلات کا سامنا کرے ان کو محسوس کرے اور پھر اپنے حسن عمل سے ہمارے لئے احساسات کا کیا علم ہوسکتا ہے ۔ پھر یہ کس طرح ہماری زمام قیادت اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں ۔ حل لغات : لَهُ الْمُلْكُ۔ بادشاہت ۔ اسی کی سلطنت ہے ۔