سورة الحشر - آیت 16

كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ان کی مثال شیطان جیسی ہے کہ وہ پہلے انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: منافقین نے یہودیوں کو بہکا کر ذلیل ورسوا کیا ۔ اور آخر میں جب کہ وہ اپنی بستیاں چھوڑ رہے تھے ۔ اور اپنے مال ومتاع سے جدا کئے جارہے تھے ۔ ان سے کچھ بھی کام نہ آسکے ۔ حالانکہ نصرت واعانت کا پورا پورا معاہدہ تھا ۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کی مثال شیطان کی طرح ہے ۔ کہ دنیا میں انسان کو گمراہ کرتا ہے ۔ کفر پر آمادہ کرتا ہے ۔ اور عاقبت کے باب میں طرح طرح کے فریبوں سے کام لیتا ہے ۔ مگر جب وہ مقررہ وقت آپہنچے گا ۔ یہ بالکل الگ جاکھڑا ہوگا ۔ اور کامل بیزاری کا اعلان کرے گا ۔ اس وقت ان فریب خوروگان معصیت کو معلوم ہوگا ۔ کہ ہم دنیا میں محض بیوقوف بنے رہے ۔ اور ہم نے اس زندگی کے متعلق جو کچھ سوچ رکھا تھا ۔ وہ قطعاً غلط ثابت ہورہا ہے *۔ حل لغات :۔ آج کے بعد جو زمانہ آتا ہے ۔ وہ کامل طور پر عذر کے مفہوم میں داخل ہے ۔ موت سے پہلے اور موت کے بعد کا بھی ۔ غرض یہ ہے کہ مسلمان مذہبی نقطہ نگاہ سے مجبور ہے ۔ کو اپنے ہر اس لمحہ کے لئے سوچتا رہے ۔ جو آگے والا ہے ۔ اور یہ غوروفکر صرف افراد تک ہی محدود نہیں ہے ۔ اور نہ اس کا تعلق محض تقویٰ اور پاکیزگی کے قرار دیئے جانے سے ہے ۔ بلکہ اس کی حدود جماعتوں تک وسیع ہے ۔ ہر ارتقاء وتقدم پر غوروفکر حاوی ہے ۔ زندہ قومیں اپنی سیاسیات اور عمرانیات کے متعلق ہر آن سوچتی رہتی ہیں ۔ اس لئے مسلمان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتا رہے اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ایک رائے متعین کرے *۔ اے نافرمان انکار کرلیں *۔