وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے، تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے، ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بہت بڑا ہے۔ اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
(ف 1) ان آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے لئے مسلمانوں کو آمادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جب جہاد کے لئے اور قوم کے اعزاز کے لئے روپے کی ضرورت ہو تو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم تامل اور سوچ میں رہو ۔ یاد رکھو یہ ساری دولت اللہ کی دی ہوئی ہے اور اس کی بخشش ہے ۔ پھر جب وہ تم سے خودتمہارے بھلے کے لئے طلب کررہا ہے تو تمہیں بےدریغ دے دینا چاہیے ۔ اس کے بعد یہ بتلایا ہے کہ قتال وانفاق کے بارہ میں موقع کی اہمیت کے لحاظ سے اجر میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے جن لوگوں نے بےکسی کے عالم میں یعنی فتح مکہ سے قبل اسلام کی مالی اور جانی مدد کی ہے وہ اپنے بعد کے لوگوں سے یقینا زیادہ افضل ہیں کیونکہ یہ وہ پاک نفوس تھے جنہوں نے اس وقت اس تجارت میں اپنا سرمایہ لگایا جبکہ کامیابی کی بہت کم توقع تھی ۔ اور فتح مکہ کے بعد مستقبل بالکل روشن تھا اور سب کو معلوم تھا کہ اب اسلام سارے عالم پر چهاجائیگا ۔ حل لغات : مِيرَاثُ۔ قبضہ واقتدار ۔