فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا
پہاڑ بکھرے ہوئے ذرات ہوجائیں گے۔
سورہ الواقعۃ (ف 1) قرآن حکیم میں قیامت کے مختلف نام آئے ہیں کہیں اس کو الساعۃ سے تعبیر کیا گیا ہے کہیں القارعۃ کہا گیا ہے ۔ کبھی الحاقۃ سے موسوم ہے ۔ اور کبھی الواقعہ کی صفت سے متصف ۔ کیونکہ اصل غرض یہ ہے کہ اس کے مختلف پہلوؤں کو روشن کیا جائے اس لحاظ سے کہ اس کے آنے کا ایک وقت مقرر ہے ۔ وہ الساعۃ ہے یعنی متعین گھڑی ۔ اور اس لحاظ سے کہ وہ عالم وجود میں تہلکہ مچانے والی ہے القارعۃ ہے ۔ اسی نسبت سے کہ اس کا تحقق مقدرات میں سے ہے ۔ الواقعۃ کہا جاتا ہے الواقعہ کے معنی یہ ہونگے کہ تحقق خارج میں ضرور واقعہ ہوگا ۔ اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ فرمایا جب یہ گھڑی آموجود ہوگی تو اس وقت کئی اکڑی ہوئی گردنیں جھک جائیں گی ۔ اور کئی جھکے ہوئے سر بلند ہوجائیں گے ۔ جو لوگ دنیا کے مال ومتاع میں مست تھے ۔ جو آنکھ اٹھا کر بھی حق وصداقت کی طرف نہیں دیکھتے تھے ۔ کبروغرور میں ہر چیز کو بھول چکے تھے ۔ چلتے تھے تو یوں کہ محشر بپا ہو ۔ اور بیٹھتے تو اس طرح کہ مسند عزت وفخران کے قدم لیتی ۔ وہ آج پستی اور ذلت کی حالت میں سرافگندہ اللہ کے حضور میں کھڑے ہونگے ان کا سارا غرور اور نازخاک میں مل جائے گا اور ان کو معلوم ہوجائیگا کہ اللہ کے ہاں سرفرازی ان لوگوں کیلئے ہے جو دل کے عاجز ہیں جن کی طبیعت میں سچائی کی قبولیت کی استعداد ہے اور جن کو دنیا میں نہایت ذلیل سمجھا جاتا تھا ۔ جن کو ہدف مذاق بنایا جاتا تھا ۔ جن کی مخالفت کی جاتی تھی جن کو زندگی کی تمام آسودگیوں سے محروم سمجھا جاتا تھا ۔ جن کے متعلق رائے تھی کہ ان میں ارتقاء اور ترقی کی اصلاً کوئی صلاحیت موجود نہیں ۔ اور جن کو جنوں اور خلل دماغ کے عارضے سے متہم کیا جاتا تھا آج ان کا مقام بلند ہوگا ۔ آج یہ کامیاب ہونگے اور ان کو خدا کی رضا کا مقام میسر ہوگا آج یہ ان لوگوں میں سے ہونگے جن میں تنومند اور پاکیزہ ترین روح ہوتی ہے ۔ آج ان کا شمار ان حضرات میں ہے جن کی نگاہیں دور رس تھیں جنہوں نے دنیا میں رہ کر عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق صحیح رائے قائم کی ۔ حل لغات: هَبَاءً۔ غبار۔