سورة الفتح - آیت 23

سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ اللہ کا طریقہ ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے اور تم اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

اللہ کا فیصلہ (ف 2) غرض یہ ہے کہ مقام حدیبیہ پر جو صلح کا اقرارنامہ مرتب ہوا اس وقت مکے والوں کا بھی فائدہ تھا ۔ وہ اگر جنگ کے در پے ہوتے اور صلح کے لئے آمادہ نہ ہوتے تو یہ بات یقینی تھی کہ وہ بری طرح شکست سے دوچار ہوتے۔ ناممکن تھا کہ وہ بہادران اسلام کا مقابلہ کرسکتے ۔ کیونکہ یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ پیغمبروں کے ماننے والے ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں ۔ یہ مقدرات میں سے ہے کہ جب جنگ ہو حق اور باطل کے درمیان ہو ۔ جب آویزش ہو ، نور اور ظلمت میں اور جب تصادم ہوجائے ظالم اور مظلوم کے درمیان تو پھر فتح ونصرت اس طرف ہونی ہے جس طرف حق ہو نور ہو اور مظلومیت ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے اس مسلک میں بھی تبدیلی نہیں ہوتی اور اس قانون کے نفاذ میں صدیوں اور قرنوں کے گزرنے پر بھی خلاف نہیں ہوتا ۔ یہ اسی طرح درست ہے جس طرح یہ درست ہے کہ دریا خس وخاشاک کو بہاکر لے جاتا ہے ۔ اور جس طرح یہ صحیح ہے کہ آگ ہر چیز کو جو اس میں ڈال دی جائے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتی ہے ۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور (ﷺ) تک کئی ہزار انبیاء تشریف لائے ہیں اور پھر لاکھوں انسانوں نے ان کی مخالفت بھی کی ہے ۔ لیکن آپ نے تاریخ اقوام وامم میں اس بات میں نمایاں طور پر دیکھا ہوگا کہ جب بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے اللہ کا غضب بھڑکا اور ان ظالموں اور نافرمانوں کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ۔ اور اس بات کی پرواہ نہیں کی گئی کہ یہ لوگ قلعوں اور بڑے بڑے محلات کے مالک ہیں ۔ ان کے پاس سیم وزر کے انبار ہیں ۔ ان کے پاس رہنے کے لئے عمدہ عمدہ باغات ہیں ۔ اور یہ زندگی کی ہر آسودگی سے بہرہ مند ہیں ۔ بلکہ جب اللہ کا عذاب آیا ہے تو یہ لوگ زندگی کی ہر آسائیش سے محروم ہوگئے ہیں اور ان کی بدبختیوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ۔