سورة الفتح - آیت 12

بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھروالوں میں واپس نہیں آئیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت اچھا لگا اور تم نے بہت برے گمان کیے۔ تم تو ہلاک ہونے والے لوگ ہو۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

منافقین کی بزدلی (ف 1) یعنی ایک طرف تو مسلمانوں کی جماعت حضور (ﷺ) کے ساتھ تھی جو حضور (ﷺ) کی مصیبت میں نکل کھڑی ہوئی تھی ۔ اور ایک منافقین تھے جن کی بزدلی اور بددلی کے جذبات غالب تھے کہ یہ لوگ مکہ کی طرف بڑھے تو ہیں اگر قریش کی فوجوں کے ساتھ تصادم ہوگیا تو پھر واپس نہیں لوٹیں گے گویا ان کے دلوں میں مایوسی تھی ۔ اور اللہ کے متعلق حسن ضن موجود نہ تھا ۔ فرمایا یہ محض تمہارا ظن تھا جو شیطان نے تیقن کی شکل میں سنوار کر تمہارے سامنے پیش کیااور تم نے تسلیم کرلیا حقیقت یہ ہے کہ تم ایسی جماعت ہو جسے ہلاکت اور بربادی پسند ہے ۔ تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیونکر ذلیل ورسوا کرسکتا ہے ؟ یہ کیونکر ممکن ہے کہ مومن لوگ تو اس کے دین کی حفاظت کے لئے سربکف ہوکر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں ۔ اور وہ جو ارحم الراحمین ہے ان کے لئے کچھ نہ کرے ۔ وہ تو اپنے ماننے والوں کو اور اپنے وابستگان عقیدت کو عزت واحترام کے مقامات پر فائز کرتا ہے ۔ اور مخالفوں کو دکھادیتا ہے کہ کیونکر ان کی ساری تدبیریں ناکام رہتی ہیں اور کس طرح باوجود ظاہری شان وشوکت کے وہ شکست یاب ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : بُورًا۔ واحد ،تثنیہ ، اور جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ بمعنی ہلاک ہونے والے ۔