سورة آل عمران - آیت 161

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ زیب نہیں دیتا کہ نبی خیانت کا ارتکاب کرے۔ ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لیے قیامت کے دن حاضر ہوگا۔ پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی (علیہ السلام) انتہا درجہ کا دیانت دار ہوتا ہے ، اس کی طرف ادنی خیانت کا انتساب بھی گناہ ہے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ ہمیں ہمارے مقررہ حق سے کچھ زاید دیا جائے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (علیہ السلام) اس نوع کی غیر منصفانہ تقسیم کا ارتکاب نہیں کرسکتا ۔ لفظ غلول بہرحال عام ہے نبی (علیہ السلام) ہر نوع کی خیانت سے بالا ہے ۔ حل لغات : یغل : مصدر غلول ، خیانت ، بددیانتی ۔ بآء ، لوٹا ۔ پھرا ۔ ماوی : ٹھکانا ، جگہ ۔