قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ
ان سے کہو اگر رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا۔
(ف 1) ان لوگوں سے خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی جلالت قدر سے آگاہ نہیں ہیں ۔ اور اس کے لئے اولاد کو ثابت کرتے ہیں ۔ فرمایا یہ بالکل غلط عقیدہ ہے ۔ آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کے کوئی بیٹا ہوتا تو ہمیں انکار کرنے سے کیا ملتا ۔ آپ لوگ دیکھتے کہ ہم سب سے پہلے اس کی پوجا اور پرستش کرتے ۔ کیونکہ ہمیں جب اس سے محبت ہے تو ان لوگوں سے بھی قدرتاً محبت ہوتی جو اس کے عزیز اور رشتہ دار ہوتے ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اس کی ذات ہر نوع کے شرک سے پاک اور بلند ہے ۔ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ۔ وہ مجرد اور بسیط حقیقت ہے ۔ آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز اس کے تابع اور مسخر ہے ۔ وہ عرش بریں کا مالک ہے۔ اس کو کسی نوع کی احتیاج اور ضرورت نہیں ۔ یہ لوگ اس قسم کے خیالات کا اظہار کرکے اس کے حضور میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس سرکشی کی سخت سزا پائیں گے ۔ حل لغات : الْعَابِدِينَ۔ عبادت کرنے والے اور عبد کے معنی انکار کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ اس صورت میں آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ اگر اللہ کے کوئی بیٹا ہوتا تو ہم ایسے اللہ کا سب سے پہلے انکار کردیتے ۔