سورة الزخرف - آیت 18

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا اللہ کے حصے میں وہ اولادآئی ہے جو زیوروں میں پرورش پاتی ہے اور بحث وتکرار میں اپنا مدعا پوری طرح واضح نہیں کر سکتی

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ کی بٹیاں نہیں ہیں ف 1: مکے والوں میں کچھ لوگ ایسے تھے ۔ جو حمق وجہالت کی وجہ سے فرشتوں کو کہتے تھے ۔ کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ ان آیات میں اس مسلک کی تردید فرمائی ہے ۔ ارشاد ہے : کہ یہ اللہ کی کس درجہ ناشکر گزاری ہے ۔ اور یہ کس درجہ غلط اتہام ہے ۔ کیا تم لوگ بچیوں کے انتساب سے خوش ہوتے ہو ۔ تمہاری حالت تو یہ ہے ۔ کہ اگر تم یہ سن لو ۔ کہ تمہارے ہاں لڑکی توالد ہوئی ہے تو تمہارا چہرہ مارے غصہ کے سیاہ پڑجاتا ہے اور تم اس وقت اپنے جذبات غیظ وغضب کو چھپا نہیں سکتے ہو ۔ پھر جب تمہارے نزدیک ان کا انتساب عمدہ اور قابل تعریف نہیں ہے ۔ تو پھر میری جانب ان کو منسوب کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ کیا میں ان کمزور اور ناتوان عورتوں کو اپنی بیٹیاں بناؤں گا ۔ جو بناؤ سنگار کی خواہش میں پلتی اور جوان ہوتی ہیں ۔ اور جن میں یہ استعداد بھی نہیں ہوتی کہ کھل کر بات چیت بھی کرسکیں ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ اگر میرے اولاد ہوتی تو تمہارے معتقدات کے مطابق اولاد ذکور ہونا چاہیے تھی ۔ کیونکہ عورتوں کو تم قدرومنزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہو ۔ ان آیتوں سے غرض یہ نہیں ۔ اور ان کا احتساب باپ کے لئے وجہ رسوائی ہے ۔ بلکہ ان کے طرز عمل کے تضاد کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اور یہ بتایا ہے کہ یہ کیا تماشا ہے ۔ کہ ایک طرف تو تم ان کو ذلیل سمجھتے ہو ۔ اور دوسری جانب ان کی پوجا کرتے ہو ۔ اور ان کو خدا کی جانب منسوب کرتے ہو ۔ کیا یہ عقیدہ اور عمل کا قضاء تمہارے لئے قابل غور نہیں ہے *۔ اومن تبسوف الحینۃ کہہ کر حقیقت واقعی کے مقصود کا اظہار کیا ہے ۔ کہ عورتوں کو زیورات کابہت زیادہ شوق ہوتا ہے اور بےچاری اظہار جذبات پر قادر نہیں ہوتیں ۔ اس لئے ان کا خدا کی بیٹیاں ہونا ۔ تو اور بھی بعیداز عقل ہے *۔ حل لغات :۔ الخصام ۔ جھگڑا ۔ بحث ومباحثہ *۔