وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے ذریعے ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ ” اللہ“ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور حکیم ہے۔
مکالمہ کی تین صورتیں (ف 1) بندوں کو اللہ تعالیٰ جب شرف مکالمہ سے نوازتے ہیں ۔ تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو قلب میں القا ہوگا ۔ اور لوح دل پر منشاء الٰہی مرتسم ہوجائیگا ۔ یا پیغمبر اور الہام کے درمیان کوئی حجاب اور واسطہ ہوگا ۔ مگر وہ پیغام بہر آئینہ پیغمبر تک پہنچ جائے گا ۔ اور یا یہ صورت ہوگی کہ جبرائیل امین بنفس نفیس تشریف لائیں گے اور بالمشافہ مراد الٰہی سے آگاہ فرمادیں گے۔ جہاں تک نفس الہام کا تعلق ہے یہ عقلاً ممکن ہے ۔ کیونکہ اپنے سینے کے خیالات کو دوسرے تک منتقل کردینا بالکل ممکن ہے ۔ مسمریزم میں یہ ہوتا ہے کہ عامل وسیط (میڈیم) میں اپنے خیالات کو بجنسہ پہنچا دیتا ہے ۔ اور یہ درمیانی آدمی بالکل عامل کے نقطہ نگاہ سے سوچتا اور دیکھتا ہے ۔ بلکہ اس کی تمام حرکات اس کے تابع ہوجاتی ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جن بندوں کو نبوت کے لئے چن لیتے ہیں تو اپنے الہامات ، پیغامات اور تعلیمات کو ان تک پہنچا دیتے ہیں ۔ حل لغات: وَرَاءِ حِجَابٍ۔ پس پردہ۔