فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
آسمانوں اور زمین کا بنانے والا جس نے تمہیں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے اور اسی طرح جانوروں میں بھی جوڑے بنائے اور وہی تمہیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے
وہ بےنظیر ہے صفات الٰہی کا تذکرہ ہے ۔ کہ وہ خدا جو حکم ہے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا بھی ہے ۔ اس کو وسائل وذرائع کی قطعاً احتیاج نہیں ۔ اس نے بالکل کتم عام سے کائنات کو پیدا کیا ۔ اور وجود سے نوازا ۔ پھر اس نے انسانوں اور حیوانوں کو جوڑا جوڑا پیدا کیا تاکہ اس طرح ان کی نسل میں افزائش ہو ۔ اور وہ بےمثل اور بےنظیر ہے ۔ دنیا کی کوئی چیز بھی ذات میں اور صفات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ وہ سارے عالم امکان کو پیدا کرنے والا ہے اور ساری کائنات سے جدا ہے ۔ وہ لوگوں کو ستنا ہے اور حالات وکوائف کو جانتا ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے ۔ جس کو چاہے زیادہ روزی سے بہرہ مند کرے اور جس کو چاہے کم ۔ وہ ہر مصلحت سے آگاہ ہے ۔ اور ہر بات کو کامل طور پر جانتا ہے *۔ جعل لکم من انفسکم ازوجا سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ کہ تم لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک روا رکھو کیونکہ وہ تم میں سے ہیں اور ان کے ساتھ آبرومندانہ تعلقات استوار کرو *۔ لیس کمثلہ شیء میں بظاہر یہ اشکال ہے کہ نفی تو اس بات کی کی گئی ہے کہ اللہ کی مانند کوئی چیز نہیں ہے نہ اس بات کی کہ اللہ کی مثل کا ہونا ہی ناممن ہے ۔ اس لئے یہ بالکل خلاف مدعا ہے جواب یہ ہے کہ عرب جب کہتے تھے کہ مثلی لایفعل کذا کہ میری طرح کا آدمی یوں نہیں کرسکتا اور اس کے معنے ایسے ہوتے تھے کہ میں ایسانہیں کرسکتا ۔ یہ محاورہ ہے ۔ اس طرح اس کے معنے بھی یہی ہونگے کہ اللہ کی ذات کے مانند کوئی چیز نہیں ۔ کیونکہ مثل سے مراد ذات ہے ۔ شئی مماثل نہیں *۔